اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے جامع حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پا کر معیشت کو بہتر بنایا جائے گا اور اس کے لیے حکومت نے مختصر اور طویل المدت جامع پالیسی مرتب کی ہے۔
ان کے بقول کوئلے، ہوا، پانی اور شمسی وسائل سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کو توانائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صنعت اور پیداواری شعبے کے علاوہ گھریلو صارفین بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت نے حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ سے 6.7 ارب ڈالر قرضے کے حصول کا ایک معاہدہ بھی کیا۔
اس معاہدے پر بعض حلقوں کی جانب سے حکومت کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ موثر پالیسیوں کی عدم موجودگی میں اس سے ملک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا۔
تاہم وزیراعظم نواز شریف نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمارے ہاں آئی ایم ایف کے پروگرامز کو غلط سمجھا جاتا ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے نکل جائیں، بھارت اس سے نکل چکا ہے ہم بھی نکل جاتے 1990 اور نوے کی دہائی۔۔۔ تنقید اگر سہی طور پر کی جارہی ہے تو بسم اللہ اور اگر یہ صرف کوئی تاثر ہے تو پھر یہ ٹھیک بات نہیں۔‘‘
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض سنیئر صحافیوں کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور اس دوران وزیرخزانہ اسحق ڈار نے بتایا کہ حکومتی اقدامات سے چھ ماہ کے عرصے میں بجٹ خسارہ 8.8 سے کم کرکے 8.2 فیصد ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دفتر کے بجٹ میں چالیس فیصد جب کہ تمام وزارتوں اور ان سے منسلک محکموں کے بجٹ میں تیس فیصد کمی کی گئی جبکہ وزیراعظم اور وزرا کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیے گئے جس سے ان کے بقول سالانہ چالیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔
بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پا کر معیشت کو بہتر بنایا جائے گا اور اس کے لیے حکومت نے مختصر اور طویل المدت جامع پالیسی مرتب کی ہے۔
ان کے بقول کوئلے، ہوا، پانی اور شمسی وسائل سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کو توانائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صنعت اور پیداواری شعبے کے علاوہ گھریلو صارفین بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت نے حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ سے 6.7 ارب ڈالر قرضے کے حصول کا ایک معاہدہ بھی کیا۔
اس معاہدے پر بعض حلقوں کی جانب سے حکومت کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ موثر پالیسیوں کی عدم موجودگی میں اس سے ملک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا۔
تاہم وزیراعظم نواز شریف نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمارے ہاں آئی ایم ایف کے پروگرامز کو غلط سمجھا جاتا ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے نکل جائیں، بھارت اس سے نکل چکا ہے ہم بھی نکل جاتے 1990 اور نوے کی دہائی۔۔۔ تنقید اگر سہی طور پر کی جارہی ہے تو بسم اللہ اور اگر یہ صرف کوئی تاثر ہے تو پھر یہ ٹھیک بات نہیں۔‘‘
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض سنیئر صحافیوں کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور اس دوران وزیرخزانہ اسحق ڈار نے بتایا کہ حکومتی اقدامات سے چھ ماہ کے عرصے میں بجٹ خسارہ 8.8 سے کم کرکے 8.2 فیصد ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دفتر کے بجٹ میں چالیس فیصد جب کہ تمام وزارتوں اور ان سے منسلک محکموں کے بجٹ میں تیس فیصد کمی کی گئی جبکہ وزیراعظم اور وزرا کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیے گئے جس سے ان کے بقول سالانہ چالیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔