اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ یورپی یونین سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے پاس امریکی منڈیوں تک آسان رسائی کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے اور اسلام آباد اب اس کے لیے کوشش کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے اور اس بارے میں پاکستان کو اپنے ساتھی ملکوں سے بھرپور تعاون چاہیے۔
’’امریکی محکمہ تجارت اور دیگر متعلقہ عہدیداروں سے ملاقاتوں میں ہم نے زور دیا کہ ہماری مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ امریکی منڈیوں تک رسائی دی جائے اور اب کیونکہ ہم یورپی یونین سے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو ہماری پوری توجہ امریکہ کی جانب ہوگی۔‘‘
تاہم صنعتکاروں سے خطاب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ امریکی منڈیوں کے بارے میں پاکستانی کاروباری شخصیات کی معلومات میں کمی ہے جس کی وجہ سے وہ مصنوعات بھی برآمد نہیں کی جا سکیں جن کے لیے تجارتی مراعات کی ضرورت تک نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے نئے مقرر کردہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اس بارے میں جلد اور موثر اقدامات کریں۔
جمعرات کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جس کے بعد پاکستان کی مصنوعات خصوصاً کپڑے کی مصنوعات یورپ کے 27 ملکوں تک بغیر کسی ڈیوٹی کے برآمد کی جاسکیں گی۔
وزیر خزانہ نے کپڑے کے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ اپنی مصنوعات میں جدت لائیں جس سے ان کی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
’’پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے مگر اگر کاٹن کی مصنوعات کی برآمدات کو آپ دیکھیں تو پاکستان کا نام کہیں نہیں۔ جو مصنوعات آپ ایک ڈالر سے کم قیمت پر بیچتے ہیں، تھوڑی سے اور محنت سے اس کی قیمت تین سے چار ڈالر ہو جاتی ہے تو آپ کا فوکس ویلیو ایڈیشن پر ہونا چاہیے۔‘‘
سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ان تمام تجارتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی۔
’’انرجی مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت تمام انرجی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔ ایک مربوط ایجنڈا کے تحت اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ڈی ریگولیشن کرنا پڑے گی اور (سرمایہ کار کا) اعتماد بحال کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس میں قرضہ جات، توانائی کا بحران اور بجٹ خسارہ شامل ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی حالیہ دنوں میں 10 ارب ڈالر سے گر گئے ہیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں برآمدات میں صرف اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے اور اس بارے میں پاکستان کو اپنے ساتھی ملکوں سے بھرپور تعاون چاہیے۔
’’امریکی محکمہ تجارت اور دیگر متعلقہ عہدیداروں سے ملاقاتوں میں ہم نے زور دیا کہ ہماری مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ امریکی منڈیوں تک رسائی دی جائے اور اب کیونکہ ہم یورپی یونین سے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو ہماری پوری توجہ امریکہ کی جانب ہوگی۔‘‘
تاہم صنعتکاروں سے خطاب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ امریکی منڈیوں کے بارے میں پاکستانی کاروباری شخصیات کی معلومات میں کمی ہے جس کی وجہ سے وہ مصنوعات بھی برآمد نہیں کی جا سکیں جن کے لیے تجارتی مراعات کی ضرورت تک نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے نئے مقرر کردہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اس بارے میں جلد اور موثر اقدامات کریں۔
جمعرات کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جس کے بعد پاکستان کی مصنوعات خصوصاً کپڑے کی مصنوعات یورپ کے 27 ملکوں تک بغیر کسی ڈیوٹی کے برآمد کی جاسکیں گی۔
وزیر خزانہ نے کپڑے کے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ اپنی مصنوعات میں جدت لائیں جس سے ان کی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
’’پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے مگر اگر کاٹن کی مصنوعات کی برآمدات کو آپ دیکھیں تو پاکستان کا نام کہیں نہیں۔ جو مصنوعات آپ ایک ڈالر سے کم قیمت پر بیچتے ہیں، تھوڑی سے اور محنت سے اس کی قیمت تین سے چار ڈالر ہو جاتی ہے تو آپ کا فوکس ویلیو ایڈیشن پر ہونا چاہیے۔‘‘
سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ان تمام تجارتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی۔
’’انرجی مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت تمام انرجی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔ ایک مربوط ایجنڈا کے تحت اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ڈی ریگولیشن کرنا پڑے گی اور (سرمایہ کار کا) اعتماد بحال کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس میں قرضہ جات، توانائی کا بحران اور بجٹ خسارہ شامل ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی حالیہ دنوں میں 10 ارب ڈالر سے گر گئے ہیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں برآمدات میں صرف اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا۔