حالیہ چند برسوں میں بلوچستان کا ذکر عموماً صوبے میں علیحدگی پسند عسکری تنظیموں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے ہوتا آیا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ضلع چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکو ڈک میں سونے اور تانبے کے بیش بہا ذخائر اور ان کے حصول سے متعلق سپریم کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے بھی پاکستان کا یہ صوبہ ذرائع ابلاغ کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
مقامی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ریکو ڈک کے ذخائر سے موثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے ہونے والی آمدن پاکستان کو نا صرف اربوں ڈالر کے بیرونی قرضوں سے تجات دلا سکتی ہے بلکہ یہ منصوبہ بلوچستان کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھین کاپر کمپنی نے 2006ء میں شروع کیا تھا جن کے مطابق علاقے میں ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت ایک سو ارب ڈالر ہے تاہم مقامی ماہرین کا دعوی ٰہے کہ یہ تخمینہ درست نہیں کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
ملک کے ایک نامور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ہے کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیئے۔
”یہ کام یورینیم کے حصول اور ریفائینگ سے بہت ملتا جلتا ہے اور ہمارے پاس اس کے لیے مکمل افرادی قوت موجود ہے جب کہ متعدد بڑی تنصیبات بھی پچھلے تیس چالیس سال سے کام کر رہی ہیں۔“
ٹیتھین کاپر کمپنی کا سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش سے متعلق معاہدہ آئندہ ماہ ختم ہو رہا ہے اور کمپنی کی خواہش ہے کہ ریکو ڈک کے ذخائر نکالنے اور ان کی صفائی کا کام بھی اس کو ہی دیا جائے لیکن حکومت بلوچستان یہ عمل خود اپنی نگرانی میں کرنا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے ٹیتھین کاپر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کی کوششوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
مقبول ترین
1