پاکستان کی معیشت ان دنوں مشکلات کا شکار ہے اور اس کا اہم سہارا عالمی مالیاتی فنڈ سے حاصل کیا گیا 11 ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ اور دوست ممالک سے ملنے والی مالی امداد ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ منصوبہ بندی کے عمل میں سرکاری سطح پر پائی جانے والی خامیاں اورسیاسی عزم کا فقدان ملک کی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ان مسائل سے نمٹنے اور ملک میں اقتصادی ترقی سے متعلق قومی حکمت عملی پرغور کے لیے سرکاری ادارے پلاننگ کمیشن نے اقوام متحدہ کے اشتراک سے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں مقامی و بین الاقوامی ماہرین نے اپنے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کیں۔
پلاننگ کمیشن کے رکن اور معروف جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کانفرنس کا مقصد ملک میں موجود وسائل بشمول افرادی قوت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ایک نئی جہت کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔
ڈاکٹر ثمرمبارک مند کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کا بنیادی اصول کاروباری شعبے میں حکومت کے کردار کو کم کرکے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
”حکومت کو بزنس کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے اور پرائیوٹ سیکٹر کو چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، چاہے توانائی کی پیداوار ہو، ڈیم بنانے ہوں، صنعت لگانی ہو، یا سرمایہ کاری لانی ہو۔“
دو روزہ کانفرنس میں شریک جارج میسن یونیورسٹی کے پروفیسر اور ماہر اقتصادیات فلپ آورزوالڈ نے بھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے سے منسلک معاملات میں حکومت کا ضرورت سے زیادہ عمل دخل معاشی اہداف کے حصول کو مشکل بنا دیتا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں توانائی کا بحران سر فہرست ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس مسلئے کا فوری حل ناگریز ہے جو سیاسی قیادت کے پختہ عزم کی غیرموجودگی میں ناممکن ہو گا کیوں کہ نجی شعبہ انفرادی طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اُنھوں نے اس عمومی تاثر کو رد کیا کہ کسی ملک کی اقتصادی خوشحالی کے لیے پہلے وہاں استحکام کا ہونا ضروری ہے۔ پروفیسر آورزوالڈ کے بقول ’’دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ معاشی خوشحالی کے عمل کا آغاز بحران کے دنوں میں ہوا جو آگے چل کر ملک میں استحکام کا باعث بنا۔‘‘