اسلام آباد —
پاکستان کے سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے مجموعی پیداوار کا چار اعشاریہ چار فیصد کا ہدف حاصل نا ہو سکا جس کی وجہ زرعی اور سروس کے شعبوں کی کمزور کارکردگی بتائی جاتی ہے۔
پیر کو سروے کے اجرا پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مالی سال 14۔2013ء میں شرح نمو چار فیصد رہی اور اس میں صنعتی شعبے میں بہتری کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے جو کہ 13۔2012ء کے ایک اعشاریہ تین فیصد کی نسبت پانچ فیصد سے بھی زیادہ رہی۔
سروے کے مطابق مالی سال 14۔2013ء میں مجموعی پیداوار کے اعتبار سے سرمایہ کاری کی شرح صرف 14 فیصد رہی جو کہ نا صرف ہدف بلکہ 13۔2012ء کے مالی سال سے بھی کم ہے۔
اسی طرح ٹیکس وصولی اور منہگائی پر قابو پانے کے اہداف بھی نواز انتظامیہ پورے نا کر سکی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا ’’ایک گلاس 25 فیصد بھرا تھا تو ہم نے کہا کہ 80 فیصد بھریں گے اب اگر 75 فیصد ہوا ہے تو لوگ کہتے کہ ہدف پورا نہیں ہوا۔ ہم نے ایسے ہدف رکھے تاکہ ٹیم دباؤ میں رہے اور کام کرے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے گئے ترسیلات زر میں اور زرمبادلہ کے ذخائز میں بہتری نے بھی ملکی معیشت کو مزید کمزور ہونے سے محفوظ رکھا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ خسارے میں بھی کمی ہوئی اور حکومت کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اسے 6 فیصد سے نیچے لایا جائے۔
’’معیشت نا ہی ایک دن یا مہینے یا ایک سال میں تباہ ہوتی ہے اور نا ہی بہتر۔ ہم یہ نہیں کر رہے کہ جی وہ بہتر ہو گیا ہے تو سو جائیں۔ سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ 6 سالوں میں پہلی مرتبہ شرح نمو چار فیصد سے اوپر گئی ہے۔‘‘
کئی مبصرین ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اضافے اور حال ہی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ’’غیر معمولی بہتری‘‘ کو معیشت میں بہتری کی علامتیں قرار دیتے ہیں۔
تاہم بعض ماہرین حکومت کے جاری اعداد و شمار پر سوالات بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’صنعتی شعبے میں اضافے کے اعداد و شمار فروری تک کے ہیں اور مارچ کے شامل نہیں کیے گئے کیونکہ وہ منفی دو اعشاریہ آٹھ فیصد ہیں تو اس سے بھی جی ڈی پی میں کمی ہو گی۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے کی یقین دہانی پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان کو 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
جبکہ ٹیلی کام کے شعبے میں تھری اور فور جی کے لائسنسز اور یورو بانڈ کی مجموعی طور پر 3 ارب ڈالرز سے زائد قیمت پر فروخت کو حکومت اپنی پالیسیوں کی کامیابی گردانتی ہے۔
پیر کو سروے کے اجرا پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مالی سال 14۔2013ء میں شرح نمو چار فیصد رہی اور اس میں صنعتی شعبے میں بہتری کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے جو کہ 13۔2012ء کے ایک اعشاریہ تین فیصد کی نسبت پانچ فیصد سے بھی زیادہ رہی۔
سروے کے مطابق مالی سال 14۔2013ء میں مجموعی پیداوار کے اعتبار سے سرمایہ کاری کی شرح صرف 14 فیصد رہی جو کہ نا صرف ہدف بلکہ 13۔2012ء کے مالی سال سے بھی کم ہے۔
اسی طرح ٹیکس وصولی اور منہگائی پر قابو پانے کے اہداف بھی نواز انتظامیہ پورے نا کر سکی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا ’’ایک گلاس 25 فیصد بھرا تھا تو ہم نے کہا کہ 80 فیصد بھریں گے اب اگر 75 فیصد ہوا ہے تو لوگ کہتے کہ ہدف پورا نہیں ہوا۔ ہم نے ایسے ہدف رکھے تاکہ ٹیم دباؤ میں رہے اور کام کرے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے گئے ترسیلات زر میں اور زرمبادلہ کے ذخائز میں بہتری نے بھی ملکی معیشت کو مزید کمزور ہونے سے محفوظ رکھا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ خسارے میں بھی کمی ہوئی اور حکومت کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اسے 6 فیصد سے نیچے لایا جائے۔
’’معیشت نا ہی ایک دن یا مہینے یا ایک سال میں تباہ ہوتی ہے اور نا ہی بہتر۔ ہم یہ نہیں کر رہے کہ جی وہ بہتر ہو گیا ہے تو سو جائیں۔ سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ 6 سالوں میں پہلی مرتبہ شرح نمو چار فیصد سے اوپر گئی ہے۔‘‘
کئی مبصرین ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اضافے اور حال ہی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ’’غیر معمولی بہتری‘‘ کو معیشت میں بہتری کی علامتیں قرار دیتے ہیں۔
تاہم بعض ماہرین حکومت کے جاری اعداد و شمار پر سوالات بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’صنعتی شعبے میں اضافے کے اعداد و شمار فروری تک کے ہیں اور مارچ کے شامل نہیں کیے گئے کیونکہ وہ منفی دو اعشاریہ آٹھ فیصد ہیں تو اس سے بھی جی ڈی پی میں کمی ہو گی۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے کی یقین دہانی پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان کو 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
جبکہ ٹیلی کام کے شعبے میں تھری اور فور جی کے لائسنسز اور یورو بانڈ کی مجموعی طور پر 3 ارب ڈالرز سے زائد قیمت پر فروخت کو حکومت اپنی پالیسیوں کی کامیابی گردانتی ہے۔