پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگراں ادارے ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن‘ کے لیے مالی وسائل میں بتدریج کمی اور ان کے اجراء میں تاخیر کے خلاف پیر کو سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے ’یوم سیاہ‘ منایا اور اس سلسلے میں تمام بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
سرکاری جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں کے اتحاد کے صدر کلیم اللہ بڑیچ نے وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص رقوم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس سے حکومت کی ترجیحات میں کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے اُن کے مطالبات پر توجہ نا دی تو احتجاجی تحریک شدت اختیار کر سکتی ہے۔
’’اگر ہم نے اپنی جد و جہد اور احتجاج میں طلبا و طالبات کو بھی شامل کر لیا تو یہ حکومت کے لیے بڑا چیلنچ بن سکتا ہے (اس لیے وہ) ہمیں مجبور نا کرے کہ ہمارا احتجاج ... بڑے بحران کے طور پر حکومت کے سامنے آ جائے۔ فوری طور پر ان مسائل کے حل پر توجہ دیں (کیوں کہ) یہ حل ہو سکتے ہیں، نا یہ اتنے گھمبیر ہیں اور نا ہی اتنی بڑی رقم کی ضرورت ہے۔‘‘
ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے 30 جون تک اسے 12 ارب روپے فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب تک صرف اڑھائی کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جب کہ حکومت نے فی الوقت بقیہ رقم کی فراہمی سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔
ایچ ای سی کے سربراہ جاوید لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کل رقم کا نصف حصہ جامعات سے منسلک افراد کی تنخواہوں اور معمول کے دیگر اخراجات کے لیے درکار ہے اور اس کی عدم دستیابی کے باعث درس و تدریس کا عمل براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فی الحال جامعات بینکوں سے قرض حاصل کرکے اپنے ناگزیر اخراجات پورا کر رہی ہیں اور اگر سرکاری فنڈز دستیاب نا ہوئے تو صورت حال سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔
’’میں (موجودہ حالات میں آنے والے دنوں میں) یونیورسٹیوں کو نادہندہ ہوتا دیکھ رہا ہوں، کئی کو بند ہوتا دیکھ رہا ہوں، ڈپارٹمنٹس بند ہو جائیں گے، ہو سکتا ہے اساتذہ ہڑتال پر چلے جائیں۔‘‘
جاوید لغاری کے بقول ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس وقت اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے تقریباً 7,500 طالب علموں کو وظائف دے رہا ہے لیکن موجودہ مالی حالات میں انھیں جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
’’ملک کی خوشحالی پر بہت اثر پڑے گا کیوں کہ آج کل ہر طرف قدرتی وسائل کے بجائے علم و دانش (Knowledge Economy) کی بات ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ممالک ترقی کرتے ہیں، کس طریقے سے یونیورسٹی ملک کی معیشت تبدیل کرتی ہے ... تو اس (پاکستان میں موجودہ صورت حال) کا براہ راست اثر ملک کی اقتصادی ترقی پر بھی ہو گا۔‘‘
حکومت کے مالیاتی مشیروں کا کہنا ہے کہ قومی معیشت سخت مشکلات سے دو چار ہے مگر اس کے باوجود تعلیم جیسے شعبوں پر خاص توجہ دی جا رہی ہے اور ہائیر ایجوکشن کمیشن کو درپیش چیلنجوں سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ روز اول سے ہی حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے جب کہ اس شعبے میں نچلی سطح پر بد انتظامی اور بد عنوانی بھی تعلیم کے فروغ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔