اسلام آباد —
پاکستان میں تقریباً 75 فیصد بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں جبکہ جماعت سوئم میں پڑھنے والے 81 فیصد طالب علم دوسری جماعت کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔
یہ انکشاف حال ہی حکومتی ادارے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ تعلیمی صورتحال 2012ء نامی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب 62 اور 78 فیصد 3 سے 5 سال کی عمر کے بچے اور بچیاں اسکول نہیں جاتے۔
رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران، بلوچستان میں جماعت سوئم اور پنجم کے طالب علموں کو جماعت دوئم کا ایک مضمون پڑھنے کو دیا گیا مگر ان میں سے بالترتیب 94 اور 68 فیصد ایسا نہ کرسکے۔
ماہر تعلیم پروفیسر اے ایچ نیر کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔
’’یہ اعداد و شمار تعلیمی محکموں اور وزراء کے دفاتر میں نمایاں طور پر چسپاں کرنے چاہیئں اور انہیں کہا جائے یہ ہیں تمھارے دعوے اور یہ ہے حقیقت۔‘‘
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں نا اہل اساتذہ کی بھرتیاں کی جاتی رہی ہیں جبکہ ان کی تربیت کے لیے بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
’’سیاست دان سمجھتا ہے کہ جب اقتدار میں آؤں تو میرا پہلا کام یہ ہونا چاہیئے کہ میں لوگوں کو ملازمتیں دوں اور تعلیمی شعبے میں جو نوکریاں دی گئیں وہ اہل لوگوں کو نہیں دی گئیں جس سے یہ شعبہ تباہ ہوگیا۔‘‘
ڈاکٹر اے ایچ نیر کا کہنا تھا کہ ملک میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بیشتر موجودہ نصاب میں زیادہ زور نظریاتی تعلیم پر ہے ناکہ تعلیمی اہلیت پر۔
’’2006ء میں نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کون کون سے اہلیتیں کس کس درجے پر آنی چاہیئں۔ مگر سات سال گزرنے کے باوجود اب تک اس کے مطابق کتابیں نہیں بنائی گئیں۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ ملک کا تعلیمی نظام گزشتہ کئی سالوں کے دوران حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث تباہ ہوا ہے اس لیے اس میں بہتری کے لیے وقت درکار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی معاشی صورتحال میں بہتری سے بھی لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے راغب ہوں گے۔
’’ایک ملک جہاں لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہوں وہاں وہ تعلیم کیا حاصل کریں گے۔ جب تک آپ اپنی معیشت کو درست نہیں کرتے آپ جو کچھ کر لیں آپ انہیں کہ دیں کہ تعلیم مفت ہے۔ ان کی پریشانی ہے کہ گھر کیسے چلے گا۔‘‘
حکومت کی جانب سے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے بنیادی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا گیا ہے جبکہ 30 لاکھ نادار بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے وسیلہ تعلیم نامی چار سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ملینیئم گولز کے مطابق پاکستان کو شرح خواندگی 2015 ء تک 56 سے 88 فیصد تک لے جانی ہے۔ حکومتی عہدیدار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یہ انکشاف حال ہی حکومتی ادارے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ تعلیمی صورتحال 2012ء نامی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب 62 اور 78 فیصد 3 سے 5 سال کی عمر کے بچے اور بچیاں اسکول نہیں جاتے۔
رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران، بلوچستان میں جماعت سوئم اور پنجم کے طالب علموں کو جماعت دوئم کا ایک مضمون پڑھنے کو دیا گیا مگر ان میں سے بالترتیب 94 اور 68 فیصد ایسا نہ کرسکے۔
ماہر تعلیم پروفیسر اے ایچ نیر کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔
’’یہ اعداد و شمار تعلیمی محکموں اور وزراء کے دفاتر میں نمایاں طور پر چسپاں کرنے چاہیئں اور انہیں کہا جائے یہ ہیں تمھارے دعوے اور یہ ہے حقیقت۔‘‘
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں نا اہل اساتذہ کی بھرتیاں کی جاتی رہی ہیں جبکہ ان کی تربیت کے لیے بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
’’سیاست دان سمجھتا ہے کہ جب اقتدار میں آؤں تو میرا پہلا کام یہ ہونا چاہیئے کہ میں لوگوں کو ملازمتیں دوں اور تعلیمی شعبے میں جو نوکریاں دی گئیں وہ اہل لوگوں کو نہیں دی گئیں جس سے یہ شعبہ تباہ ہوگیا۔‘‘
ڈاکٹر اے ایچ نیر کا کہنا تھا کہ ملک میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بیشتر موجودہ نصاب میں زیادہ زور نظریاتی تعلیم پر ہے ناکہ تعلیمی اہلیت پر۔
’’2006ء میں نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کون کون سے اہلیتیں کس کس درجے پر آنی چاہیئں۔ مگر سات سال گزرنے کے باوجود اب تک اس کے مطابق کتابیں نہیں بنائی گئیں۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ ملک کا تعلیمی نظام گزشتہ کئی سالوں کے دوران حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث تباہ ہوا ہے اس لیے اس میں بہتری کے لیے وقت درکار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی معاشی صورتحال میں بہتری سے بھی لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے راغب ہوں گے۔
’’ایک ملک جہاں لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہوں وہاں وہ تعلیم کیا حاصل کریں گے۔ جب تک آپ اپنی معیشت کو درست نہیں کرتے آپ جو کچھ کر لیں آپ انہیں کہ دیں کہ تعلیم مفت ہے۔ ان کی پریشانی ہے کہ گھر کیسے چلے گا۔‘‘
حکومت کی جانب سے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے بنیادی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا گیا ہے جبکہ 30 لاکھ نادار بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے وسیلہ تعلیم نامی چار سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ملینیئم گولز کے مطابق پاکستان کو شرح خواندگی 2015 ء تک 56 سے 88 فیصد تک لے جانی ہے۔ حکومتی عہدیدار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔