پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کی حامی ہے اور انتخابات کے بروقت، شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انعقاد کی خواہاں ہے۔
جمعرات کو فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ انتخابات کے التوا سے فوج کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی سیاست میں اس کا کوئی کردار ہے۔ ان کے بقول فوج جمہوری نظام کو مزید مستحکم دیکھنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ منتخب جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے جارہی ہے اور آئندہ انتخاب مئی میں متوقع ہیں۔ لیکن بعض حلقے ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور انتخابی اصلاحاتی مطالبات کے تناظر میں انتخابات کے التوا اور فوجی مداخلت کا خدشتہ ظاہر کرتے چلے آرہے تھے۔
تاہم فوج کی طرف سے اس بیان کے بعد موجودہ نظام میں فوجی مداخلت کی قیاس آرائیاں بظاہر دم توڑ گئی ہیں۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملکی حالات قومی اتحاد کے متقاضی ہیں اور تمام اداروں کو مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنی چاہیں۔
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے بارے میں میجر جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی جگہ فوج طلب کرنا حکومت کی صوابدید ہے جب کہ پاکستانی فوج حکومت کی ہدایت پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
حالیہ دنوں میں انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کی طرف سے پاکستانی فوج پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس کے بعض انتہا پسند تنظیموں سے روابط ہیں لیکن جمعرات کو میجر جنرل باجوہ نے ان الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کا کسی بھی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کی تکمیل میں بہترین معاونت کی ہے جب کہ کوئٹہ میں حالیہ دہشت گردانہ واقعے کے بعد پاکستانی فوج نے کوئٹہ میں 19 نئی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔
کوئٹہ میں گزشتہ ہفتہ ایک طاقتور ترین بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے جن میں اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کی تھی۔
مرنے والوں کے لواحقین کا مطالبہ تھا کہ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے کیونکہ صوبائی انتظامیہ ان کی برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔
جمعرات کو فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ انتخابات کے التوا سے فوج کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی سیاست میں اس کا کوئی کردار ہے۔ ان کے بقول فوج جمہوری نظام کو مزید مستحکم دیکھنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ منتخب جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے جارہی ہے اور آئندہ انتخاب مئی میں متوقع ہیں۔ لیکن بعض حلقے ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور انتخابی اصلاحاتی مطالبات کے تناظر میں انتخابات کے التوا اور فوجی مداخلت کا خدشتہ ظاہر کرتے چلے آرہے تھے۔
تاہم فوج کی طرف سے اس بیان کے بعد موجودہ نظام میں فوجی مداخلت کی قیاس آرائیاں بظاہر دم توڑ گئی ہیں۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملکی حالات قومی اتحاد کے متقاضی ہیں اور تمام اداروں کو مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنی چاہیں۔
جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے بارے میں میجر جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی جگہ فوج طلب کرنا حکومت کی صوابدید ہے جب کہ پاکستانی فوج حکومت کی ہدایت پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
حالیہ دنوں میں انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کی طرف سے پاکستانی فوج پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس کے بعض انتہا پسند تنظیموں سے روابط ہیں لیکن جمعرات کو میجر جنرل باجوہ نے ان الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کا کسی بھی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کی تکمیل میں بہترین معاونت کی ہے جب کہ کوئٹہ میں حالیہ دہشت گردانہ واقعے کے بعد پاکستانی فوج نے کوئٹہ میں 19 نئی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔
کوئٹہ میں گزشتہ ہفتہ ایک طاقتور ترین بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے جن میں اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کی تھی۔
مرنے والوں کے لواحقین کا مطالبہ تھا کہ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے کیونکہ صوبائی انتظامیہ ان کی برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔