بدھ کے روز پاکستان بھر میں ہونے والے عام انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی کے لے فوج کو بڑے پیمانے پر اختیارات دیے جانے سے خدشات بڑ ھ رہے ہیں۔
پاکستانی فوج پرامن انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر تین لاکھ 70 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات کرے گی، جو پاکستان کی تاریخ میں الیکشن کے دن فوجیوں کی سب سے بڑی تعیناتی ہو گی۔
الیکشن کمشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ فوجی عہدے داروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں جس سے وہ پولنگ اسٹیشن کے اندر کسی بھی غیر قانونی اقدام کی انکواری کرکے سزا سناسکیں گے۔
ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل اور سیکیورٹی تجزیہ کار طلعت مسعود نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ میں نہیں جانتا کہ انہیں یہ اختیارات کیوں دیے گئے ہیں کیونکہ یہ چیز غیر ضروری طور پر لوگوں کی ذہنوں میں شکوک و شہبات پیدا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے کبھی اتنے اختیارات دیے گئے ہوں۔
پاکستانی انتخابات کے مبصرین نے بھی موجودہ انتخابات میں فوج کو وسیع تر اختیارات دیے جانے پر سوالات اٹھائے ہیں۔
یورپی یونین الیکشن آبزرویشن مشن کے ڈپٹی چیف دیمترا آئیونو کا کہنا ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اور میں بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ فوج کے کردار کے حوالے سے ذہنوں میں سنجیدہ نوعیت کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
پچھلے ہفتے سینیٹ میں حزب اختلاف کی ایک لیڈر شیری رحمان نے کہا تھا کہ یہ اقدام کئی تنازعات اور پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک اور سینیٹر رضا ربانی نے الیکشن کمشن سے اس بارے میں وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔
الیکشن کمشن آف پاکستان نے اتوار کے روز کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوجیوں کی موجودگی کا مقصد آزاد اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔
ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے ابن عبد الرحمن نے انتخابی مہم کے دوران سینسر شپ پر نیوز کانفرنس کے بعد کہا کہ اس کے بعد انتخابات کو آزاد اور شفاف کہنا مشکل ہو گا۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کے تقریباً نصف عرصے میں ملک کی طاقت ور فوج اقتدار میں رہی ہے اور اب بھی وہ ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے جس کی سیاسی اور فوجی معاملات میں مداخلت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ۔۔ تاہم فوج اس الزام سے انکار کرتی ہے۔
حالیہ عرصے میں انتخابی مہموں پر دہشت گردوں کے حملوں سے یہ خدشات بھی ابھر رہے ہیں کہ وہ ووٹروں کو بھی ہدف بنا سکتے ہیں۔
تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف جو اب اڈیالہ جیل میں دس سال کی قید بھگت رہے ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان کے درمیان ایک ایسا مقابلہ ہونے جا رہا ہے جس میں تلخیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔