اسلام آباد —
انتخابی عمل کے دوران شدت پسنوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تمام حلقوں کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار اور نگراں حکومت کی انہیں روکنے کے لیے اہلیت پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے چاروں صوبائی حکومتوں کو اتوار کو ایک بار پھر ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے تمام امیدواروں اور سیاسی رہنماؤں کو تحفظ فراہم کریں۔
کمیشن سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سمیت ادارے کے چاروں اراکین نے حال ہی میں کراچی، بلوچستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں سیاسی کارکنوں، امیدواروں اور انتخابی دفاتر پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام انتخابات کے محفوظ اور احسن طریقے سے انعقاد کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عسکریت پسندوں سے انتخابات میں اپنی کارروائیاں روکنے کی اپیل کی ہے۔
’’ہم جو خود مختار اور آزاد پاکستان کا موقف لے کر آئے ہیں جو ملک کو امریکہ کی غلامی سے نکالے گا۔ ہمیں موقع دیں مہم چلانے کا تاکہ ہم اپنا ایجنڈا پورا کرا سکیں۔‘‘
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے بدامنی پر قابو پانا نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ تاہم سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔
’’ایبٹ آباد (اسامہ بن لادن کی ہلاکت) کا جب واقعہ ہوا تو ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی اس کے فیصلوں پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ اگر حکومت اس میں کوئی پیش رفت کرتی تو آج اس طرح سیاست دانوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ شاید اس طرح کی کارروائیاں نا ہو رہی ہوتیں۔‘‘
کالعدم جنگجو تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی دھمکیوں کے پیش نظر سابق حکومت میں شامل جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اب تک اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے شروع نہیں کر سکی ہیں۔
انتخابی عمل کے دوران بدامنی کی اس نئی لہر پر ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ یہ ریاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔
’’ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی کا مسئلہ نہیں بلکہ اب دیکھنا ہے کہ ریاست کی عمل داری مضبوط ہے یا دھمکیاں دینے والے دہشت گردوں کی قوت۔‘‘
تاہم طالبان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھنے والی مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا غفور حیدری کا بظاہرموقف ہے کہ ’’اگر حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کا منصوبہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہوں اور تمھارا یہ فیصلہ ہے تو تم خون خرابا کیوں کرواتے ہو۔‘‘
ملک کے تین صوبوں میں سلامتی کے خراب حالات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس جمہوری عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تعطل ملک کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں ۔
کمیشن سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سمیت ادارے کے چاروں اراکین نے حال ہی میں کراچی، بلوچستان اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں سیاسی کارکنوں، امیدواروں اور انتخابی دفاتر پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام انتخابات کے محفوظ اور احسن طریقے سے انعقاد کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عسکریت پسندوں سے انتخابات میں اپنی کارروائیاں روکنے کی اپیل کی ہے۔
’’ہم جو خود مختار اور آزاد پاکستان کا موقف لے کر آئے ہیں جو ملک کو امریکہ کی غلامی سے نکالے گا۔ ہمیں موقع دیں مہم چلانے کا تاکہ ہم اپنا ایجنڈا پورا کرا سکیں۔‘‘
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے بدامنی پر قابو پانا نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ تاہم سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔
’’ایبٹ آباد (اسامہ بن لادن کی ہلاکت) کا جب واقعہ ہوا تو ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی اس کے فیصلوں پر عمل کیوں نہیں ہوا۔ اگر حکومت اس میں کوئی پیش رفت کرتی تو آج اس طرح سیاست دانوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ شاید اس طرح کی کارروائیاں نا ہو رہی ہوتیں۔‘‘
کالعدم جنگجو تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی دھمکیوں کے پیش نظر سابق حکومت میں شامل جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اب تک اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے شروع نہیں کر سکی ہیں۔
انتخابی عمل کے دوران بدامنی کی اس نئی لہر پر ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ یہ ریاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔
’’ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی کا مسئلہ نہیں بلکہ اب دیکھنا ہے کہ ریاست کی عمل داری مضبوط ہے یا دھمکیاں دینے والے دہشت گردوں کی قوت۔‘‘
تاہم طالبان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھنے والی مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا غفور حیدری کا بظاہرموقف ہے کہ ’’اگر حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کا منصوبہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہوں اور تمھارا یہ فیصلہ ہے تو تم خون خرابا کیوں کرواتے ہو۔‘‘
ملک کے تین صوبوں میں سلامتی کے خراب حالات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس جمہوری عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تعطل ملک کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں ۔