وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا ہے کہ ملک میں تونائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے نجی شعبے کو بھی حکومت کا ہا تھ بٹانا ہو گا۔
اتوار کو اسلام آباد میں تین روزہ ’پاکستان انرجی کانفرنس‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ملک میں سلامتی صورت حال اور بین الاقوامی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث پاکستان کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت معاشی استحکا م کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن معیشت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری شعبوں کو بلا تعطل اور سستی بجلی فراہم کی جائے۔
وزیر گیلانی نے کہا کہ ملک میں توانائی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم اُنھوں نے متنبہ کیا کہ اگر تمام فریقین بشمول نجی شعبے نے مشترکہ طور پر اس چیلنج سے نبر آزما ہونے کے لیے فوری اقدامات نا کیے تو آئندہ پندرہ سالوں میں توانائی کا موجودہ بحران دوگنا تک ہو سکتاہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں بجلی کی پیداوار میں 1,700 میگا واٹ کا اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کئی دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔
مقامی وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کے علاوہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بھی توانائی کے حصول کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں ایران اور ترکمانستان سے پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی درآمد شامل ہیں۔
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک کی کئی چھوٹی صنعتیں بند ہو گئی ہیں جب کہ بڑے صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی طویل دورانیے کی بندش سے وہ اپنے برآمدی اہداف پورے نہیں کر پا رہے ہیں۔
دریں اثناء بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں بھی حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کے علاوہ خود حکمران پیپلز پاٹی کی حلیف جماعتیں بھی حکمران پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔
حکومت پاکستان کے مطابق ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 90 فیصد تیل برآمد کرنا پڑتا ہے جب کہ اس کا محض دس فیصد مقامی وسائل سے حاصل کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم گیلانی کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت عالمی منڈی کے مقابلے میں عوام کو سستے تیل کی فراہمی کے لیے قومی خزانے سے 35 ارب ادا کر چکی ہے اور اب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔