بجلی کی پیداوار کی نو نجی کمپنیوں نے ’پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو)‘ کی طرف سے واجب الادا رقوم کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت کو ”خود مختارانہ ضمانت“ فراہم کرنے کے نوٹس جاری کیے ہیں۔
پاکستان میں قائم کل 29 نجی کمپنیوں کی مشاورتی کونسل (آئی پی پی اے سی) کے چیئرمین عبداللہ یوسف نے جمعہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوٹس کے تحت حکومت کو آئندہ 30 روز میں تمام معاملے کا جائزہ لے کر اس کے حل سے متعلق ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پیپکو نے ان نو کمپنیوں کو 31 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہے۔”یہ (کمپنیاں) بینکوں سے ادھار پر لی جانے والی رقم کی حد عبور کر چکی ہیں اور اب ان کے پاس اب بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن کی خریداری کے لیے پیسہ بھی نہیں ہے۔“
عبداللہ یوسف کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں میں سے پانچ کے بجلی گھر وں میں مائع ایندھن (خام تیل یا ڈیزل) استعمال ہوتا ہے جب کہ دیگر چار کی تنصیبات قدرتی گیس پر چلتی ہیں۔ لیکن اُن کا کہنا تھا کہ قادر پور گیس فیلڈ کی مشینری کی معمول کی جانچ اور سالانہ مرمت کے باعث 28 اگست سے ان چار بجلی گھروں کو آئندہ تین ہفتوں تک ایندھن کی فراہمی معطل رہے گی۔
آئی پی پی اے سی کے سربراہ نے بتایا کہ گیس کی عدم دستیابی کی صورت میں بجلی گھروں کو ڈیزل پر چلایا جا سکتا ہے لیکن اس سے بجلی کی پیداوار پر آنے والے اخراجات سات گنا بڑھ جائیں گے، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کمپنیوں کے پاس مائع ایندھن خریدنے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔
گیس پر چلنے والے بجلی گھروں کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 900 میگا واٹ ہے اور ان کے بند ہونے کی صورت میں ملک میں بجلی کی کمی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
عبداللہ یوسف کا کہنا تھا کہ پیپکو کے ذمے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے 211 ارب روپے واجب ادا ہیں ، اور یہ معاملہ ملک میں توانائی کے شعبے کو درپیش بحران کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
”ہم اس صورت حال سے بھاگ نہیں سکتے، ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہو گا اور حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں سرمایہ لگانا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔“
پاکستان کو ان دنوں بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے طویل دورانیہ کی بندش معمول بن گئی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جہاں گھریلوں صارفین شدید مشکلات سے دو چار ہیں وہیں صنعتی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ہزاروں چھوٹے پیداواری یونٹ، خصوصاً گھریلوں سطح پر کپڑا تیار کرنے کے لیے لگائی گئی کھڈیاں، بند ہو چکے ہیں۔