رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ سحر اور افطار کے اوقات میں تسلسل کے ساتھ بجلی کی فراہمی کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں تاہم اس مہینے کے آغاز ہی سے لوڈ شیڈنگ کی شکایات منظرعام پر آنا شروع ہو گئی تھیں اور پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے اعلانات کے مطابق بیسویں روزے تک کم ہی کوئی دن ایسا ہو گا جس روز بجلی کی طلب و رسد میں 3,000 میگا واٹ سے کم کا فرق رہا ہو۔
پیپکو کے اعلان کے مطابق 20 اگست کو بجلی کا شارٹ فال 3,500 میگا واٹ تھا۔ پیپکو کے عہدے دار شوکت علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 21 اگست کو اتوار کی تعطیل کے سبب شارٹ فال کے بارے میں اعداد و شمار فوری طور پر دستیاب نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیپکو پوری کوشش کر رہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کم از کم ہو خصوصاً سحر اور افطار کے اوقات میں۔
شوکت علی نے بتایا کہ پیپکو کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا اظہار بارہا ان کے ادارے کی طرف سے ہو چکا ہے۔ ان میں قرضوں اور بلوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تیل و گیس کی فراہمی کی کمی کے اسباب شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ڈیموں سے نسبتاً کم پانی کا اخراج بھی بجلی کی فراہمی میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی مانگ بہت تیزی سے بڑھی ہے اور وزیر اعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں قومی گرڈ میں ان کی حکومت 3,000میگا واٹ بجلی کا اضافہ کر چکی ہے۔ تاہم ان سب کے باوجود ملک میں لوڈ شیڈنگ ایک چیلنج کے طور پر اب بھی موجود ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت بجلی کی پیداوارکے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے۔ اسی سلسلے میں سندھ کے ریگستانی علاقے تھر میں بھی کوئلے سے گیس اور پھر اس سے بجلی بنانے کے پراجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس پراجیکٹ کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ہفتہ کے روز تھر کول اینڈ انرجی بورڈ کے 13ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں کوئلے کے زیر زمین گیس کا پہلا تجربہ اگلے ماہ متوقع ہے اس سے ابتدائی طور پر 100میگا واٹ بجلی بنائی جا سکے گی ۔
انھوں نے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ ایک چینی اور ایک آسٹریلوی کمپنی نے بھی تھرکول کے ذخائر سے 2,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔