پاکستان نے کہا ہے کہ ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کے لیے مجوزہ پائپ لائن بچھانے کے سلسلے میں ٹینڈر جاری کردیا گیا ہے جس پر 30 روز میں پیش رفت متوقع ہے۔
وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل عاصم حسین نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کو اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے چین کے سرکاری ’انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا‘ کی جانب سے مالی وسائل فراہم کرنے سے ہاتھ کھینچ لینے کے باوجود ایرانی گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر کام جاری رہے گا۔
’’لیکن ہم نے جو گیس انفراسٹرکچر سرچارج لگایا ہے اس سے حکومت کے پاس کافی رقم (جمع ہو گئی) ہے اور ہم ایران گیس پائپ لائن بچھائیں گے۔ اس (منصوبے کی تکمیل) کے لیے جو 2014ء کے اختتام تک کی ڈیڈ لائن ہے توقع ہے کہ اس سے بہت پہلے ہم اس کو مکمل کر لیں گے۔‘‘
وفاقی وزیر نے اجلاس کو بتایا کہ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قطر سے مائع قدرتی گیس ’ایل این جی‘ کی درآمد بھی ڈیڑھ سال کے عرصے میں شروع ہو جائے گی اور اس ضمن میں دوطرفہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔
’’ایل این جی کی قیمت طے ہونا ابھی باقی ہے تاہم اس کا تعین بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر موجودہ قیمت کے مطابق ہی ہوگا۔‘‘
عاصم حسین نے کہا کہ ایل این جی درآمد کے لیے ٹرمینل کی تعمیر ضروری ہے اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری حاصل کر کے (ایل این جی ٹرمینل کی) تعمیر شروع کر دی جائے گی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے کی امریکی مخالفت میں حالیہ دنوں میں شدت آئی ہے اور واشنگٹن نے متنبہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ اشتراک اسلام آباد پر امریکہ کے قوانین کے تحت اقتصادی تعزیرات کی وجہ بن سکتا ہے جس سے پاکستانی معیشت مزید مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے۔
لیکن پاکستانی رہنماؤں نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران سے گیس کی درآمد ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بہت مدد گار ثابت ہو گی اور یہ منصوبہ قومی مفادات کا حصہ ہے اس لیے پاکستان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔
چین کے سرکاری بینک نے پاکستانی حبیب بینک لمیٹڈ کے ساتھ مل کر پاکستان کے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن بظاہر امریکی تعزیرات کے خوف سے اس نے منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
ایرانی سرحد سے نواب شاہ تک پاکستانی پائپ لائن تقریباَ 800 کلومیٹر طویل ہو گئی اور اس پر لاگت کا تخمینہ ڈیڑھ ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ تاہم بعض پاکستانی ماہرین کے خیال میں پائپ لائن بچھانے پر 60 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے جو پاکستان اپنے طور پر فراہم کرسکتا ہے۔