پاکستان میں بجلی کا بحران ایک مرتبہ پھر سنگین صورت اختیار کر گیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 18 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف صارفین کا احتجاج بھی معمول بن چکا ہے۔
پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بالخصوص صوبہ پنجاب میں زور پکڑ رہا ہے جہاں اتوار کو بھی لاہور سمیت مختلف شہروں میں بجلی کی بندش کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔
چیچہ وطنی میں کیے گئے ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران مشتعل مظاہرین نے ناصرف بجلی کی ترسیل سے متعلق ادارے کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی بلکہ مقامی پولیس کی عمارتوں پر دھاوا بولنے کے علاوہ قومی اسمبلی کے رکن زاہد اقبال کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔
بجلی کی بندش میں ایسے وقت غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جب ملک کے بیشتر حصے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل عارف محمود کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
’’سندھ کا بیشتر علاقہ، بلوچستان کے میدانی علاقے اور پنجاب کے اکثر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، کل بھی زیادہ سے زیادہ درجہ حراست 46 سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت جوں کی توں رہے گی، اس میں کسی قسم کی کمی کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ جہاں ایک طرف ملک کے اکثر علاقوں میں موسم سخت گرم ہے وہیں شمالی علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے کم ہونے کی وجہ سے برف پگھلنے کا عمل سست ہے جس کے باعث آبی ذخائر میں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔
’’ملک کے بالائی علاقے میں درجہ حرارت نہیں بڑھ رہا ... وہاں تواتر سے مغرب سے آنے والی سرد ہواؤں کا گزر ہو رہا ہے اور مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت نہیں بڑھ رہا، جس کی وجہ سے گلیشیئر اور برف نہیں پگھل رہی اور (ڈیموں میں) پانی کا بہاؤ نسبتاً کم ہے۔‘‘
پاکستان کو ان دنوں 6,000 سے 8,000 میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جو ملک میں مجموعی مانگ کا تقریباً ایک تہائی بنتا ہے۔ طلب اور رسد میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں میں کئی کئی گھنٹوں کے لیے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی احمد مختار نے ہفتہ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران ملک میں بجلی کی ترسیل سے متعلق اداروں کے سربراہان کو غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ترجیحی بنیادوں پر ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران بجلی کی پیداوار میں 3,000 میگا واٹ سے زائد کا اضافہ کیا جا چکا ہے، جب کہ صوبائی سطح پر اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اگرچہ کہ صوبائی حکومتوں کو بھی اس شعبے میں منصوبے شروع کرنے کا مکمل اختیار ہے۔