ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 30 فیصد آبادی پینے کے لیے پانی دریاوں اور زمین پر موجود ذرائع سے حاصل کرتی ہے اس لیے اگر صنعتی تنصیبات سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کو پانی آلودہ کرنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو ناصرف انسانی زندگی اس سے بری طرح متاثر ہوگی بلکہ آبی حیات کی نسل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں’ورلڈ وائیڈ فنڈ‘ کے ڈائریکٹر جنرل علی حسن حبیب نے بتایا کہ جنگلات کا کٹاو جہاں فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب ہے وہیں درخت نا ہونے کے باعث بارش کا پانی اپنے ساتھ بہت سی مٹی بہا کہ دریاوں میں لے جاتا ہے جو ان کی تہ کو کیچڑ سے بھر دیتی ہے۔
’اینگرو فوڈز‘ کے ایک عہدے دار سرفراز رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلوں کے تناظر میں سیلاب اور کبھی خشک سالی کے خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لئے اگر ہنگامی بنیادوں پر تدابیر نا اپنائی گئیں تو خوراک کی طلب اور رسد میں شدید فرق آ جائے گا، خواراک کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور اس صورت میں قحط کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔
”ضرورت اس بات کی ہے کہ کئی آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آبی قلت سے زرعی شعبہ متاثر نا ہو۔“
وفاقی وزارت ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل جاوید علی خان کا کہنا ہے کہ حکومت مسائل کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے اور تقریباً 13 ارب روپے کی لاگت سے ملک بھر میں تقریباً 10 لاکھ ہیکٹر رقبے پر جنگلات اگائے جا رہے ہیں تاکہ جنگلات کا رقبہ موجودہ پانچ فیصد سے بڑھا کر 2015ء تک چھے فیصد کیا جا سکے۔
جاوید علی خان نے بتایا کہ پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اب حکومت پہلی بار استعمال شدہ پانی کو صفائی کا بعد دوبارہ استعمال میں لانے کی ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہی ہے۔
”اس وقت صرف کراچی میں روزانہ 40 کروڑ گیلن سے زیادہ پانی سمندر میں بہایا جا رہا ہے جسے اگر ٹریٹ کر دیا جائے تو اسے آب پاشی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔“
اُنھوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک پلانٹ قائم کیا گیا ہے جہاں روزانہ پچاس لاکھ گیلن پانی صاف کر کے آس پاس کے زرعی علاقوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔