اسلام آباد —
غیر ملکی مبصرین نے گزشتہ ہفتہ ہونے والے انتخابات میں عوام کے بھرپور انداز میں شرکت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ان انتخابات کا انعقاد ’’مجموعی طور‘‘ پر شفاف طریقے سے ہوا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے یورپین یونین کے چیف آبزرور مائیکل گالا کا کہنا تھا ان کی ٹیم کے 144 ممبروں نے الیکشن کے روز 184 حلقوں کا دورہ کیا جن میں سے بیشتر میں ووٹ ڈالنے کا عمل اطمینان بخش تھا جبکہ صرف 10 فیصد میں کچھ بے ضابطگیاں رپورٹ کی گئیں۔
ان کی ٹیم میں شریک یورپین پارلیمنٹ کے ممبر رچرڈ ہاؤٹ نے مغربی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی عوام کی جمہوری عمل میں شرکت کو سراہتے ہوئے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں پاکستان کی مدد کریں۔
’’جمہوری نظام سے متعلق خطرات کے خلاف عوام کا ووٹ کے لیے نکلنا خود اس نظام پر بھرپور اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے اور شدت پسندی کے خلاف ایک اظہار ہے اور ہم سب کو اس رجحان کو تقویت دینا ہوگی۔‘‘
تاہم یورپین یونین کی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ میں انتخابی عمل میں سابق حکمران اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہیں دوسری جماعتوں کی نسبت انتخابی مہم چلانے کے لیے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں انتخابات کے دوران شدت پسندی کے واقعات کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن سے آئندہ الیکشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مربوط لائحہ عمل مرتب کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔
رپورٹ میں ذرائع ابلاغ کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے منافی ٹی وی چینلز کی جانب سے چند جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کو غیر معمولی کوریج دی گئی۔
انتخابات اور جمہوری عمل کی نگرانی کرنے والی امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ احمدی فرقہ کے خلاف ’’امتیازی سلوک‘‘ رہا اور ان کے لئے علیحدہ ووٹر فہرستیں مرتب کی گئی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں عام نشستوں پر کم خواتین امیدواروں کو کھڑا کیا گیا۔
ٹیم ممبر نار اووا کا کہنا تھا ’’میں نے نوٹس کیا ہے کہ 564 خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں میں کسی خاتوں نے ووٹ نہیں ڈالا اور یہ ایک مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 3 فیصد خوتین امیدوار قومی اسمبلی کے لیے انتخابات لڑی ہیں۔‘‘
غیر ملکی مبصرین نے ریٹرننگ افسران کی جانب سے ان کے بقول غیر منصفانہ طور پر امیدواروں کی جانچ پڑتال کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لیے وہ اپنے اختیار مزید موثر استعمال سے مستقبل میں بے ضابطگیوں پر قابو پائے۔
پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے یورپین یونین کے چیف آبزرور مائیکل گالا کا کہنا تھا ان کی ٹیم کے 144 ممبروں نے الیکشن کے روز 184 حلقوں کا دورہ کیا جن میں سے بیشتر میں ووٹ ڈالنے کا عمل اطمینان بخش تھا جبکہ صرف 10 فیصد میں کچھ بے ضابطگیاں رپورٹ کی گئیں۔
ان کی ٹیم میں شریک یورپین پارلیمنٹ کے ممبر رچرڈ ہاؤٹ نے مغربی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی عوام کی جمہوری عمل میں شرکت کو سراہتے ہوئے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں پاکستان کی مدد کریں۔
’’جمہوری نظام سے متعلق خطرات کے خلاف عوام کا ووٹ کے لیے نکلنا خود اس نظام پر بھرپور اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے اور شدت پسندی کے خلاف ایک اظہار ہے اور ہم سب کو اس رجحان کو تقویت دینا ہوگی۔‘‘
تاہم یورپین یونین کی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ میں انتخابی عمل میں سابق حکمران اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہیں دوسری جماعتوں کی نسبت انتخابی مہم چلانے کے لیے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں انتخابات کے دوران شدت پسندی کے واقعات کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن سے آئندہ الیکشن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مربوط لائحہ عمل مرتب کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔
رپورٹ میں ذرائع ابلاغ کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے منافی ٹی وی چینلز کی جانب سے چند جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کو غیر معمولی کوریج دی گئی۔
انتخابات اور جمہوری عمل کی نگرانی کرنے والی امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ احمدی فرقہ کے خلاف ’’امتیازی سلوک‘‘ رہا اور ان کے لئے علیحدہ ووٹر فہرستیں مرتب کی گئی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں عام نشستوں پر کم خواتین امیدواروں کو کھڑا کیا گیا۔
ٹیم ممبر نار اووا کا کہنا تھا ’’میں نے نوٹس کیا ہے کہ 564 خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں میں کسی خاتوں نے ووٹ نہیں ڈالا اور یہ ایک مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 3 فیصد خوتین امیدوار قومی اسمبلی کے لیے انتخابات لڑی ہیں۔‘‘
غیر ملکی مبصرین نے ریٹرننگ افسران کی جانب سے ان کے بقول غیر منصفانہ طور پر امیدواروں کی جانچ پڑتال کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لیے وہ اپنے اختیار مزید موثر استعمال سے مستقبل میں بے ضابطگیوں پر قابو پائے۔