پاکستان نے امریکہ ایران کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک اپنے باہمی معاملات کو بات چیت سے حل کریں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف جمعرات کی شام پاکستان پہنچ رہے ہیں۔
ترجمان نے جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران جواد ظریف کے دورہ پاکستان کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، ایران امریکہ تنازع کو بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
‘‘ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی جائے اور اگر اس میں کوئی شک و شبہ ہے تو اسے بات چیت سے حل کیا جائے۔ پاکستان کا اس پر بڑا واضح موقف رہا ہے اور اب بھی ہے اور آگے بھی یہی ہو گا۔‘‘
ترجمان نے مزید کہا کہ ‘‘بات چیت کے لیے جو بھی راستہ اپنایا جائے گا، پاکستان اس کی حمایت کرے گا۔’‘
پاکستانی دفتر خارجہ نے جواد ظریف کے دورے کے ایجنڈے کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ تاہم، یہ کہا کہ وہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
جواد ظریف اس سے قبل خطے کے دیگر ملکوں چین، بھارت، جاپان اور ترکمانستان کا دورہ کر چکے ہیں، جس کا مقصد جوہری معاہدے پر قائم رہنے کے ایرانی عزم کے اظہار اور امریکہ سے جاری کشیدگی پر تہران کے موقف کو واضح کرنا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کے اس دورے کا مقصد ایران کے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی پر پاکستانی قیادت کی سوچ کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس دورے کا ایک اور مقصد تہران پر واشنگٹن کے دباؤ میں کمی کے لیے سفارتی حمایت حاصل کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تنازع میں مزید شدت آتی ہے اور امریکہ تہران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کے لیے غیر جانبدار رہنا ایک چیلنج ہو گا۔ اور اس کے لیے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر توازن قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
‘‘پاکستان کا جھکاؤ تو سعودی عرب کی طرف ہے۔ لیکن پاکستان یہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بگڑ جائیں۔ اگر ایران کے خلاف کوئی بڑی فوجی کارروائی ہوتی ہے تو اس سے پورا خطہ متاثر ہوتا ہے اور پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ لیکن اس وقت یہ اندازہ نہیں کہ پاکستان کیا پالیسی اختیار کرے گا۔ ایک طرف امریکہ کا دباؤ ہو گا اور دوسری طرف پاکستان کے لیے سعودی عرب کا بھی دباؤ ہو گا۔ ’’
سینئر صحافی اور تجزیہ کار شاہد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان پر ریاض کی حمایت میں موقف اپنانے کے لیے دباؤ ہو سکتا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، غیر جانبدار رہنا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
‘‘ہم (پاکستان) ماضی میں امریکہ کا ساتھ دے کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کرنے پر۔ اور اگر اب بھی کوئی چاہتا ہے کہ وہی تاریخ دہرائی جائے، وہ بے شک ایسا کریں لیکن اس کا نیتجہ کوئی اچھا نہیں ہو گا‘‘۔
پاکستان یہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اسلام آباد مشرق وسطیٰ کے تنازع میں فریق نہیں بنے گا اور یہ کہ اگر تنازع میں شدت آئی تو یہ پورے خطے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہو گئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔
معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں بحال کر دی تھیں جو اس مہینے سے نافذ ہو گئی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے اپنا طیارہ بردار جہاز، جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کے اعلان کے بعد خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں اپنے مفادات اور اتحادیوں پر ایران کے ممکنہ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر اٹھایا ہے۔ لیکن ایران امریکہ کے اس اقدام پر سخت برہم ہے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری ہے۔