فیص احمد فیض کی شاعری پڑھنے والے پر تو مختلف کیفیات آشکار کرتی ہے لیکن اس کا فسوں اس وقت دو چند ہو جاتا ہے جب کوئی پورے سبھاؤ کے ساتھ اسے گاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام خاص و عام میں مقبول رہا ہے۔
فیض کی بے شمار غزلوں اور نظموں کی دھنیں ترتیب دینے والے معروف موسیقار ارشد حسین کہتے ہیں کہ فیض کی شاعری میں بہت نغمگی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "فیض صاحب کے ہاں لفظوں کا جو چناؤ ہوتا ہے اس میں بھی جمال جھلکتا ہے، جیسے مثال کے طور پر یہ مصرعہ کہ 'یوں سجا چاند کہ جھلکا تیرے انداز کا رنگ' یہ صوتی اعتبار سے بھی بہت خوبصورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نغمگی بہت اہم رکن اور خوبی ہے فیض صاحب کی شاعری کی۔"
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے فیض کے کلام کی جنتی بھی دھنیں ترتیب دیں ان میں "اگر کوئی طرز اچھی بنی تو اس میں بہت بڑا کمال فیض صاحب کی شاعری کا ہی ہے کیونکہ جو روشنی ہے جو موسیقیت ہے وہ ان کے لفظوں سے نکلتی ہے۔"
فی زمانہ فیض کے کلام کو گانے والوں میں سب سے بڑا نام ٹینا ثانی کا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں فیض کے کلام کو گاتے ہوئے کبھی مشکل پیش نہیں آئی لیکن بعض الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں گانے سے زیادہ تحت اللفظ سے واضح کرنا پڑتا ہے۔
"مجھے گانے میں فیض صاحب مشکل نہیں لگتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں دھن نہیں گاتی میں لفظ گا رہی ہوتی ہوں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ میرا ان کی شاعری سے رابطہ بہت مضبوط ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ فیض کا کلام اپنی تمام تر جزیات ہے ساتھ انسان پر کوئی نہ کوئی کیفیت طاری کر دیتا ہے اور اسی طرح جب وہ یہ کلام گاتی ہیں تو انھیں ایک ایک لفظ شکل بناتا ہوا نظر آتا ہے۔
"میرے دل میرے مسافر، میرے لیے وہ نظم تھی جسے شروع میں گاتے ہوئے میرا دم گھٹ جاتا تھا، آپ کو ایک ایک لفظ محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ نظم 'تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے'، میں نے ان کا جو بھی کلام گایا اس کا مجھ پر اثر ہوا۔"
33 برس قبل 20 نومبر کو فیض احمد فیض اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے، لیکن عدم مساوات، سماجی ناہمواریوں اور ایک روشن سویرے کی امید پر مبنی ان کے افکار آج بھی تروتازہ ہیں۔