رسائی کے لنکس

پاکستان میں موروثی سیاست مزید مضبوط ہونے لگی


پاکستان میں موروثی سیاست مزید مضبوط ہونے لگی
پاکستان میں موروثی سیاست مزید مضبوط ہونے لگی

پاکستان میں موروثی سیاست مزید مضبوط ہونے کے اشارے مل رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ گویا آئندہ دس بیس سالوں تک بھی موروثی سیاست ختم ہونے والی نہیں۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عددی برتری رکھنے والی تینوں جماعتوں سمیت دیگر پارٹیوں نے حالیہ دنوں میں آئندہ نسل پر حکمرانی کیلئے اپنے جانشین میدان میں اتار دیئے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے گزشتہ ہفتے سے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے جبکہ حکمراں جماعت کی جانب سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیاسی ایوانوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف پہلے ہی سیاست کے داو پیچ سیکھنے کے لئے میدان میں موجود ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی سلمان شہباز پہلے ہی پنجاب کی سیاست میں ان ہیں۔ مزید برآں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دوسرے صاحبزادے موسیٰ رضا گیلانی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

ادھر سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اور اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے صاحب زادے بھی بدین سے عملی سیاست کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ وہ بدین سے اپنے والد کی جانب سے خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لئے میدان میں اتریں ہیں ۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور روزنامہ” خبریں “لاہور کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد کا کہنا ہے کہ” مریم نواز کی سیاست میں آمد اس بات کا اشارہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ، حمزہ شریف کے کام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ حمزہ شریف کے حالیہ مالیاتی اسکینڈلزان کی اپنی نیک نامی پر ضرب لگنے کے مترادف ہیں تو دوسری جانب عائشہ احد ملک کی جانب سے حمزہ شریف کی بیوی ہونے کے دعویٰ نے بھی کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی“ ضیاء شاہدکے خیال میں” مذکورہ دونوں واقعات کے سبب ہی نواز شریف ، حمزہ شریف کے مقابلے میں مریم نواز کو عملی سیاست میں لانے پر تیار ہوئے ۔ “

اس سے قبل 1999 میں نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز بھی ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد شریف برادران کی قید اور ملک بدری کے دنوں میں سیاست میں آئیں۔ انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع بھی کرائے لیکن بعد میں واپس لے لیے ۔

23 سالہ بلاول بھٹو زرداری نے شاید آج سے چار سے پہلے یعنی بے نظیر بھٹو کی شہادت سے قبل یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اتنی بڑی جماعت کے اس طرح قائد بن جائیں گے ۔پاکستان کے ایک اور سینئر صحافی محمود شام کے مطابق ” بلاول بھٹو کو یہ منصب اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے صلے میں ملا ہے لہذا بلاول کا اولین فرض ہے کہ” بھٹوز“ کے ویژن لے کر آگے چلیں۔ “ بلاول کو یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ وہ بھٹوخاندان کا نام استعمال کر کے آئندہ کسی بھی منصب پر فائز ہو سکتے ہیں ۔پھر سیاست میں پہلے سے موجود ان کی پھپھو اور صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور جو قومی اسمبلی کی رکن بھی ہیں ، بلاول کے لئے ہر طرح سے معاون ہوں گی۔

دوسری جانب پی پی پی سے ہی تعلق رکھنے والے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاست اگلی نسل میں منتقل کررہے ہیں ۔ اپنے بڑے صاجزادے عبدالقادر گیلانی کو اسمبلی میں پہنچانے کے بعد ان کی توجہ اب اپنے چھوٹے بیٹے موسیٰ گیلانی پر ہے، وزیر اعظم آج کل سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے خالی کی گئی قومی اسمبلی کی نشست پر موسیٰ رضا کو کامیاب بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الہی ممبر قومی اسمبلی ہیں ۔ ایک اور جانب دیکھیں تو پیپلزپارٹی شہید بھٹو کی سربراہی مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو سے ان کی جواں سال بیٹی فاطمہ بھٹو کی جانب منتقل ہوتی نظر آ رہی ہے اور اس میں ان کے بھائی ذوالفقار علی بھٹو جونیر کا اہم کردار بھی محسوس کیا جا رہا ہے ۔

موروثی سیاست کے نقصانات

بعض سیاسی جماعتیں ، غیر جانب دار سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے موروثی سیاست پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے ۔ ان کے تئیں موروثی سیاست کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ موروثی سیاست دان جب بھی برسرا قتدار آتے ہیں مہنگائی ،امن و امان کی صورتحال اورکرپشن جیسے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ان نقصانات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جس کے سبب موروثی سیاست تیزی سے فروغ پا رہی ہے ۔

یہ موروثی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر جماعتوں میں ’ون مین شو‘ نظر آتا ہے جن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) ،مسلم لیگ (ف) جمعیت علماء اسلام (ف) ، جمعیت علماء (س) ، متحدہ قومی موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلزپارٹی غنویٰ بھٹو ، پیپلزپارٹی شیر پاؤ بھی شامل ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت شروع سے آخر تک ایک ہی ہے ، سوائے پیپلزپارٹی کے جس کے دو رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔

موروثی سیاست کے مخالفین

اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ سب سے زیادہ موروثی سیاست کی مخالفت کرتی نظر آ تی ہیں اور نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہیں تاہم ملک کی تینوں بڑی جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے آئندہ نسلوں پر حکمرانی کیلئے اپنے جانشین سامنے لاکھڑے کیے ہیں ۔ناقدین کے مطابق اس اقدام کے سبب اب ملک میں نظام کی تبدیلی اتنی آسان نہیں ہو گی ۔

XS
SM
MD
LG