رسائی کے لنکس

'لڑائی میں شدت آئی تو افغان امن عمل ناکام ہونے کا خطرہ ہے'


پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل (فائل فوٹو)
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل (فائل فوٹو)

افغان طالبان کی طرف سے غیر ملکی افواج کے خلاف نئے حملوں کے اعلان کے بعد پاکستان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جنگ میں شدت آنے سے "امن عمل کے ناکام ہونے کا خطرہ ہے۔"

جمعرات کو اسلام آباد میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغان تنازع کے تمام فریق امن کو موقع دے کر مذاکرات جاری رکھیں کیوں کہ ان کے بقول افغانستان میں امن و استحکام بات چیت ہی سے آ سکتا ہے۔

افغان طالبان نے گزشتہ ہفتے ہی موسمِ بہار کے آغاز کے ساتھ ہی افغان، نیٹو اور امریکی فورسز پر نئے حملے کا اعلان کیا تھا۔

طالبان کے اس اعلان کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے افغان عوام کی مشکلات بڑھیں گی اور یہ حملے افغانستان کی مزید بربادی کا سبب بنیں گے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے افغان تنازع کے مختلف مقامی فریقین کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت ہونے کی توقع ہے۔

جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ طالبان اور افغانوں کے درمیان دوحہ میں 19 سے 21 اپریل کو ہونے والی بات چیت ایک مثبت پیش رفت ہے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان توقع کرتا ہے کہ اس بات چیت کے نتیجے میں افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام قائم ہو سکتا ہے۔

افغان حکومت نے رواں ہفتے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے 250 نمائندوں پر مشتمل وفد دوحہ بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ وفد میں افغانستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ افغان حکومت کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔

لیکن طالبان یہ کہہ چکے ہیں ان مذاکرات میں آنے والے سرکاری نمائندے ذاتی حیثیت میں شریک ہوں گے اور وہ افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کریں گے۔

دوسری طرف طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان مذاکراتی وفد کی طویل فہرست پر بھی اعتراض کیا ہے۔

طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات کی میزبانی کرنے والوں کا اتنے بڑے وفد کو قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اتنی تعداد میں کسی وفد کا ایسے اجلاسوں میں شامل ہونا غیر معمولی بات ہے۔

ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ "یہ ملاقات پہلے سے منظم انداز میں طے شدہ کانفرنس ہے۔۔۔ یہ کسی شادی یا کابل کے کسی ہوٹل میں ہونے والی کسی پارٹی کا دعوت نامہ نہیں ہے۔"

اگر طالبان اور افغان نمائندوں کے مابین بات چیت طے شدہ پروگرام کے تحت ہوتی ہے تو یہ 2015ء میں پاکستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے ناکام مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں کا پہلا باضابطہ رابطہ ہو گا۔

یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے جب امریکہ کی طرف سے افغان تنازع کے پُرامن حل کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد افغان طالبان سے حالیہ مہینوں میں متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ دونوں فریقین نے بعض امور پر اتفاق رائے کیا ہے لیکن افغانستان میں جنگ بندی اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

امریکہ اور بعض دیگر ملکوں کے دباؤ کے باوجود طالبان تاحال افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت پر تیار نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG