رسائی کے لنکس

ممبئی حملوں کے ایک مبینہ مالی معاون کے خلاف علیحدہ چالان پیش کرنے کا حکم


حملے کا نشانہ بننے والا ہوٹل (فائل فوٹو)
حملے کا نشانہ بننے والا ہوٹل (فائل فوٹو)

ایف آئی نے اسے دہشت گردی میں مالی معاونت فراہم کرنے، دہشت گردوں کو تربیت دینے اور اکسانے جیسی متعدد دفعات کے تحت گرفتار کیا۔

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو استغاثہ نے بتایا کہ بھارتی شہر ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہوئے دہشت گرد حملے کے ایک مبینہ مالی معاون کے خلاف تحقیقات تاحال جاری ہیں اور وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" سے کہا گیا ہے کہ وہ ملزم کے بارے علیحدہ سے چالان عدالت میں پیش کرے۔

’ایف آئی اے‘ نے ممبئی حملہ کیس میں مبینہ مالی سہولت کار صفیان ظفر کا نام چارج شیٹ کے دوسرے کالم میں لکھ کر پیش کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ تفتیش کاروں کو اس کے خلاف شواہد حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔

ایف آئی اے نے صفیان کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا تھا۔ اسے 2011ء میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے ممبئی حملے کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمن لکھوی سمیت سات افراد پر فرد جرم عائد کیے جانے کے وقت اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

شائع شدہ اطلاعات میں بتایا گیا کہ ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق صفیان ظفر ولد مجتبیٰ حسین کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کا ایک سابق کارکن اور مالی معاون تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے 14 ہزار آٹھ سو روپے کی رقم ایک دوسرے مشتبہ شخص کے اکاؤنٹ میں منتقل کی تھی اور یہ وجہ دریافت کیے بغیر کہ اسے یہ رقم کیوں درکار ہے۔

دوران تفتیش ملزم نے بتایا تھا کہ اس نے یہ رقم اپنے بھائی کے اکاؤنٹ میں منتقل کی تھی۔

ایف آئی نے اسے دہشت گردی میں مالی معاونت فراہم کرنے، دہشت گردوں کو تربیت دینے اور اکسانے جیسی متعدد دفعات کے تحت گرفتار کیا۔

بند کمرے میں ہونے والی مقدمے کی سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف علیحدہ چارج شیٹ 22 ستمبر کو پیش کر دی جائے گی۔

ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں غیر ملکیوں سمیت 166 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

بھارت نے اس کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کیا جب کہ پاکستان نے اپنے ہاں اس معاملے پر تحقیقات اور عدالتی کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔

حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت دسمبر 2014ء میں منظور کر لی گئی تھی لیکن حکومت نے نقض امن کے قانون کے تحت انھیں نظر بند رکھا تھا لیکن بعد ازاں عدالت نے ان کی نظر بندی ختم کرتے ہوئے انھیں اپریل 2015ء میں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG