رسائی کے لنکس

پاکستان میں فلموں سے پیسہ کمانا اب دیوانے کا خواب نہیں رہا


پاکستان میں فلموں سے پیسہ کمانا اب دیوانے کا خواب نہیں رہا
پاکستان میں فلموں سے پیسہ کمانا اب دیوانے کا خواب نہیں رہا

’پاکستان میں فلموں سے کروڑوں روپے کمانا اب دیوانے کا خواب نہیں رہا‘۔ ۔۔ہوسکتا ہے آپ کو اس فقرے پر یقین نہ آیا ہو۔۔لیکن حقیقت اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ تین سال پہلے ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’سنگھ از کنگ‘ نے پاکستان میں صرف 3ہفتوں کے دوران 3کروڑ روپے کا بزنس کیا تھاجبکہ 23دسمبر کو ریلیز ہونے والی فلم ”ڈان ٹو“ نے صرف پانچ دن میں 3کروڑ روپے کا بزنس کیا۔

پاکستانی فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی ’مانڈوی والا انٹرٹیمنٹ ‘ کے مالک ندیم مانڈوی والا کے مطابق سال 2010میں ریلیز ہونے والی فلم’مائی نیم از خان‘ نے پہلے ہفتے ہی دوکروڑسترہ لاکھ روپے کا بزنس کیاتو 2011کی پاکستانی بلاک بسٹرفلم ’بول‘نے پہلے ہفتے میں ڈھائی کروڑ روپے کماکر نیا ریکارڈ بنایا۔ ’باڈی گارڈ ‘نے پہلے ہفتے تین کروڑ تیرہ لاکھ روپے کا بزنس کیا تو” ڈان ٹو“ نے پہلے ہفتے میں تین کروڑ انتر لاکھ روپے کماکر پچھلی تمام فلموں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ہالی وڈ کی تھری ڈی فلم ”اوتار“ ریلیز کے چار مہینے تک ہاوٴس فل جاتی رہی۔

ایک عام پاکستانی شہری کے لئے یہ اعداوشمار حیران کن ہوسکتے ہیں کیوں کہ جہاں 90فیصد سنیماگھرشاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہوگئے ہوں اور جہاں کی فلم انڈسٹری کو تباہ ہوئے عشرے بیت گئے ہوں وہاں وہاں فلموں کا کاروبار چمکتا محسوس ہو تو حیرانی یقینی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری کروٹ بدل رہی ہے۔ شہر قائد کے جس کونے میں چلے جایئے آج کے دور کا ہر شخص ، جسے سنیما سے شوق ہے، باآسانی’ ایٹریم سنیما‘ کا پتہ بتادے گا حالانکہ اس سنیما کو بنے ہوئے ابھی صرف ایک سال کا عرصہ ہوا ہے۔ جو لوگ کبھی گھٹن اور سیلن زدہ ، بوسیدہ ، کیلیں نکلی نشستوں والے سنیما گھر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ آج جب شہر کے وسط میں قائم ملٹی پلیکس کا رخ کرتے ہیں تو کئی حیرتیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔بین الااقوامی معیار کے فوڈ کورٹ سے لے کرفلم کا ٹکٹ حاصل کرنے تک وہ جس قدر نظم و ضبط کا مشاہدہ کرتے ہیں ، اس پر فوراً یقین نہیں کرپاتے۔

یہ اسی نظم و ضبط اور مہذب ماحول کا اثر ہے کہ آج ملک میں ریلیز ہونے والی فلمیں کروڑوں کا بزنس کررہی ہیں۔ بیرون ممالک سے فلموں کی درآمد، جدید ٹیکنالوجی سے لیس سنیما گھر، شاندار ماحول ۔۔ان سب عوامل نے سنیما انڈسٹری کو انتہائی منافع بخش کاروبار میں تبدیل کردیا ہے۔

فلم ’ڈان ٹو‘ دیکھنے کی غرض سے سنیماہال پہنچنے والی ایک خاتون مسز غزالہ ریاض نے وی او اے کو بتایا”مجھے تو لگ رہا ہے کوئی خوبصورت سا خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔یہاں تو ماحول ہی بدلا ہوا ہے۔ تھری ڈی فلم کو اتنے شاندار ماحول میں رہتے ہوئے دیکھنامیرے لئے تو سنہرا خواب بن گیا تھا۔ آج میں بے خوف ہو کر پوری فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے آئی ہوں۔ اگرچہ فلم کا ٹکٹ 500روپے کا ہے مگر ایک اچھی تفریح کے لئے تھوڑی سی زیادہ رقم بھی دینی پڑے تو سودا مہنگا نہیں۔ “

فلم کی شوقین ایک انیس بیس سالہ لڑکی ندا حسن کا کہنا تھا ”اگر تھیٹر کے اندر ایک وسیع و عریض سلور اسکرین لگی ہو، جدین ساونڈ سسٹم لگا ہو ، فلم دیکھنے والے کو تھری ڈی کے اسپیشل ایفیکٹس لطف اندوز کررہے ہوں تو ایسی تفریح کا کہنا ہی کیا۔ ان تمام دلچسپیوں نے فلم بینوں کو سنیما گھروں کی طرف دوبارہ متوجہ کرلیا ہے اور آج جو پاکستا ن میں فلموں سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کمانے کی باتیں ہورہی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ فلم بین سنیما گھروں کا رخ کررہے اور تھیٹرز کی ویرانیاں دور ہورہی ہیں۔“

فلم ڈسٹری بیوشن کے کاروبار سے وابستہ افراد اور سرمایہ کاروں کی جانب سے لگائے گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں فلموں کی مارکیٹ کو مزید عروج دینے کے لئے کم از کم پانچ چھ سو سنیما گھروں کی ضرورت ہے ۔ ان کے مطابق بزنس کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر شہر میں ڈیجیٹل اور 3Dٹیکنالوجی سے مزین سینماہالز کی ضرورت ہے۔صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں تقریباً20علاقوں میں 50سنیماگھرہونے چاہئیں۔ جدید سنیما ہالز کی بدولت نئی سرمایہ کاری ہوگئی اور کاروبار و روزگار کے نئے مواقع نصیب ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG