اسلام آباد —
پاکستانی فلمی صنعت یعنی لالی وڈ کی بحالی کے دعوے خوش کن ہیں مگر عملی طور پر اس کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے اور سال 2012ء میں بھی پاکستانی سینماؤں پر بالی وڈ یعنی بھارتی فلموں کا راج رہا۔ اس سال 45 بھارتی فلمیں پاکستانی سینماؤں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔
پاکستان فلم سنسر بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق سال 2012ء میں کل 131 فلموں کو پاکستان میں نمائش کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے جن میں بالی ووڈ کی 45، انگریزی زبان کی 57، انگلش کی اردو زبان میں ڈب کی گئیں 7، پشتو کی 14، پنجابی زبان کی 7 اور اردو زبان کی ایک فلم شامل ہے۔
لالی ووڈ کے ممتاز ہدایتکار سید نور نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان میں کاروباری حالات سال 2012ء میں اچھے نہیں رہے اسی طرح فلمی صنعت بھی پریشانی سے دوچار رہی۔’’پورے سال کے دوران ایک فلم شریکا کامیاب رہی اس سے حوصلے تو نہیں بڑھے بلکہ پریشانی بڑھی ہے کہ فلم کامیاب ہونے کے باوجود اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر سکی۔‘‘
سید نور نے کہا کہ کچھ لوگ بھارتی فلموں کو پاکستان لا کر مختصر مدت کی سرمایہ کاری کر کے پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر ملک کی عزت، ثقافت اور صنعت کو تباہ کر رہے ہیں۔
ممتاز فلمساز سہیل خان نے کہا کہ پاکستان میں فلمیں نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بھارتی فلموں کی بڑی تعداد میں آمد اور پاکستانی فلموں کو نمائش کے لیے اچھے سینما گھروں کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔
’’پاکستان میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے ہم نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کو محدود کیا جائے اور ایک مہینے میں صرف ایک بھارتی فلم کو نمائش کی اجازت دی جائے اس اقدام سے پاکستان میں فلمی صنعت میں سرمایہ کاری ہو گی اور لوگ فلمیں بنائیں گے کیونکہ انہیں اپنی فلم کی نمائش کے لیے اچھے سینما ملیں گے۔‘‘
ماضی کی ممتاز اداکارہ اور ہدایت کارہ سنگیتا نے کہا کہ ‘‘ ہم بالکل مایوس ہو چکے ہیں ملک کے حالات کی وجہ سے کوئی اپنی جمع شدہ پونجی لگانے کے لیے تیار نہیں۔’’
سنگیتا نے کہا کہ بھارتی فلم پچاس لاکھ میں آ جاتی ہے اور سرمایہ کار کو منافع بھی مل جاتا ہے ایسے حالات میں کون آٹھ ماہ میں فلم بنا کر رقم کی واپسی کا انتظار کر سکتا ہے۔
تاہم سید نور اور سہیل خان مکمل طور پر مایوس نہیں اور وہ پرامید ہیں کہ 2013ء میں شاید کچھ بہتری آئے۔
پاکستان فلم سنسر بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق سال 2012ء میں کل 131 فلموں کو پاکستان میں نمائش کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے جن میں بالی ووڈ کی 45، انگریزی زبان کی 57، انگلش کی اردو زبان میں ڈب کی گئیں 7، پشتو کی 14، پنجابی زبان کی 7 اور اردو زبان کی ایک فلم شامل ہے۔
لالی ووڈ کے ممتاز ہدایتکار سید نور نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان میں کاروباری حالات سال 2012ء میں اچھے نہیں رہے اسی طرح فلمی صنعت بھی پریشانی سے دوچار رہی۔’’پورے سال کے دوران ایک فلم شریکا کامیاب رہی اس سے حوصلے تو نہیں بڑھے بلکہ پریشانی بڑھی ہے کہ فلم کامیاب ہونے کے باوجود اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر سکی۔‘‘
سید نور نے کہا کہ کچھ لوگ بھارتی فلموں کو پاکستان لا کر مختصر مدت کی سرمایہ کاری کر کے پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر ملک کی عزت، ثقافت اور صنعت کو تباہ کر رہے ہیں۔
ممتاز فلمساز سہیل خان نے کہا کہ پاکستان میں فلمیں نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بھارتی فلموں کی بڑی تعداد میں آمد اور پاکستانی فلموں کو نمائش کے لیے اچھے سینما گھروں کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔
’’پاکستان میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے ہم نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کو محدود کیا جائے اور ایک مہینے میں صرف ایک بھارتی فلم کو نمائش کی اجازت دی جائے اس اقدام سے پاکستان میں فلمی صنعت میں سرمایہ کاری ہو گی اور لوگ فلمیں بنائیں گے کیونکہ انہیں اپنی فلم کی نمائش کے لیے اچھے سینما ملیں گے۔‘‘
ماضی کی ممتاز اداکارہ اور ہدایت کارہ سنگیتا نے کہا کہ ‘‘ ہم بالکل مایوس ہو چکے ہیں ملک کے حالات کی وجہ سے کوئی اپنی جمع شدہ پونجی لگانے کے لیے تیار نہیں۔’’
سنگیتا نے کہا کہ بھارتی فلم پچاس لاکھ میں آ جاتی ہے اور سرمایہ کار کو منافع بھی مل جاتا ہے ایسے حالات میں کون آٹھ ماہ میں فلم بنا کر رقم کی واپسی کا انتظار کر سکتا ہے۔
تاہم سید نور اور سہیل خان مکمل طور پر مایوس نہیں اور وہ پرامید ہیں کہ 2013ء میں شاید کچھ بہتری آئے۔