رسائی کے لنکس

سیلاب کے ستم، سندھ کے اسکول بھی ویران ہوگئے


سیلاب کے ستم، سندھ کے اسکول بھی ویران ہوگئے
سیلاب کے ستم، سندھ کے اسکول بھی ویران ہوگئے

کراچی کے علاقے رزاق آباد ،کورنگی کے عارضی کیمپ میں مقیم پیر بخش زندگی کی 88بہاریں دیکھ چکا ہے۔ ان دنوں وہ بالکل ہی مایوس ہے۔ ٹوٹی پھوٹی اردو کاسہارا لیتے ہوئے کہتا ہے: کیا پوچھتے ہوئے سائیں، پانی کا بہاوٴ سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ہنستا بستاگھر،جانور، زمین ۔۔سب کچھ۔۔۔ جوان بیٹا ماں کو پکارتا پکارتا گھر کی دیوار پھاند کر بھاگا۔۔۔میں روکتا ہی رہ گیا، نہ ان کمزور نظروں نے ساتھ دیا نہ قسمت نے۔۔۔دس ، پندرہ دن ہوگئے کسی کی واپسی نہیں ہوئی، یہ معصوم بچے اور جوان بہو۔۔۔اس نے رو رو کر آنکھوں کا پانی سکھا لیا ہے۔۔۔کہاں جاوٴں کس سے کہوں۔۔مربھی نہیں سکتا۔۔ان پوتے پوتیوں کا کیا ہوگا کون سہارا دے گا۔۔۔اتنا کہتے کہتے پیر بخش کی آنکھیں ڈب ڈبا آئیں اور دو آنسو جھریوں زدہ بے رونق چہرے سے نیچے ڈھلک گئے۔

شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو تہس نہس کردیا ہے وہیں تعلیم کا شعبہ بھی کچھ کم نقصان سے دوچار نہیں ہوا۔ سچ پوچھئے تو یہ وہ شعبہ ہے جو ایک دو انسان نہیں ،کم از کم دو نسلوں کو تعلیم سے دور کردے گا۔ پھر اس میں نہ جانے کتنے پیر بخش اور کتنے پیر بخش کے پوتے پوتیوں جیسے معصوم بچے ہوں گے۔

پروونشیل ڈزآسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق سیلاب سے سندھ کے 20سے زائد اضلاع اور ان میں رہنے والے 26لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ان اعداد وشمار میں وہ سات لاکھ افراد بھی شامل ہیں جو پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں۔

جہاں اس قدر بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہوں وہاں کے اسکول ، کالج کیا بچ سکیں گے؟یقینا نہیں۔۔۔ تمام اسکولز یا تو بند کردیئے گئے ہیں یا ان کو ریلیف کیمپوں میں بدل دیا گیا ہے۔ اب یہاں اونچی آواز میں گنتی اور پہاڑے پڑھنے کی آواز آتی ہے نہ چھٹی کی گھنٹی کے ساتھ ہی گھرجانے کی خوشی میں کلاس روم سے بھاگتے بچوں کا شور سنائی دیتا ہے۔ اب یہ اسکولز ان گنت بے گھر لوگوں کا رین بسیرا بن چکے ہیں ۔

دریائے سندھ کے قریب کچے کے علاقوں میں واقع گھروں اور اجڑے ہوئے کھیتوں کے ساتھ ساتھ بنے اکثر اسکولز یا تو پانی کے تھپیٹروں کو برداشت نہ کرنے کے باعث منہدم ہوگئے یا پھر اس قدر بوسیدہ کہ مرمت کے بغیر کام میں نہیں لائے جاسکیں گے۔

کل تباہ حال اسکولوں کی صحیح تعداد تو ابھی آنا باقی ہے مگر سینکڑوں اسکولوں کی تباہی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد وشمار کے مطابق سیلاب سے پہلے صوبہ سندھ کے 23 اضلاع میں چھبیس ہزار نو سو پرائیویٹ اور سرکاری اسکولزقائم تھے۔ ان میں سے چودہ ہزار آٹھ سو پانچ اسکولز کراچی اور ایک ہزار آٹھ سو اکیس حیدرآباد میں جبکہ باقی پانچ ہزار چار سو چوالیس اسکول صوبے کے باقی علاقوں میں قائم تھے۔ یہی پانچ ہزار چار سو چوالیس اسکولز سیلاب کی زد پر ہیں۔

حکومت نے احتیاطی اقدام کے طور پر ملک کے بالائی صوبوں سے سیلاب کی خبروں کے آتے آتے کچے کے بیشتر اسکول حساس قرار دے کر پہلے ہی بند کردیئے تھے۔اسکولوں کا فرنیچر اور دیگر آلات محفوظ مقامات پر واقع اسکولوں میں منتقل کردیا تھا اور ماں باپ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ حساس اسکولوں کے بدلے محفوظ قرار دیئے جانے والے اسکولوں میں بچے بھیجیں مگر جب ماں باپ ہی کو دربدر ہونا پڑا تو بچے اسکولز کہاں سے جاتے ۔دو وقت کی روٹی اور بھوک کے مقابلے میں تعلیم کو ترجیح نہیں دی جاسکتی لہذا بچے بھی والدین کے ساتھ جہاں زرا سی بھی اماں کا آسرا ملا چلے پڑے ۔

گورنمنٹ کالج برائے ٹیکنالوجی سائٹ ایریا کراچی کے فلڈ ریلیف کیمپ میں مقیم ایسے ہی ایک طالب علم کا کہنا تھا : ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگیا، ہم پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اسکول اور ٹیچروں کی بہت یاد آتی ہے مگر اب شاید تعلیم ممکن نہ ہوسکے۔

سائٹ ایریا کا یہفلڈ ریلیف کیمپ جیکب آباد، کندھ کورٹ، کشمور، گھوٹکی، سکھر، شکارپور، خیرپور، نوشہرو فیروز اور دادو کے مکینوں سے آباد ہوا ہے۔ ان علاقوں کے تمام اسکول جانے والے بچے جہاں اپنے اوپر ٹوٹنے والی مصیبت کا ذکر کرتے ہیں وہیں ان کے گھٹنوں گھٹنوں پانی بھرے اسکولوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ سب بچے مستقبل کی بربادی کی اندوہناک داستان سناتے ہیں۔ ایک ایسا مستقبل جہاں تعلیم سے دوری کا خوف اور ناخواندگی کے گہرے سائے صاف نظر آتے ہیں۔

حکومتی کوششیں

ظاہر ہے حکومت کے پاس الٰہ دین کاجادوئی چراغ نہیں کہ جن حاضر اور پل بھر میں اسکول تیار۔۔۔سالوں لگیں گے جب کہیں جاکر پہلے والا ماحول پیدا ہوسکے گا۔ مگر کیاوہ سارے بچے اسکول آسکیں گے جو پہلے آتے تھے؟ جانے اس کا جواب کس کے پاس ہو مگرآل پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ کے صدر سید خالد علی شاہ کی آنکھوں میں امید کی ایک کرن ہے ۔ وہ کہتے ہیں : سندھ کی تعلیمی نظام کو بحال ہوتے ہوتے کم از کم دو سال تو لگ ہی جائیں گے" خالد شاہ کو ایک اور خوشی بھی ہے ۔ "سندھ کے بیشتر پرائیویٹ سیکنڈری اسکولز سیلاب سے محفوظ ہیں۔ اور یہی ایک روشن پہلو ہے"

سیکریٹری ایجوکیشن سندھ عالم دین بلو کے مطابق سندھ میں سیلاب سے چار ہزار پانچ سو اسکولوں کے دو لاکھ طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے متاثرین کی بحالی اور اپنے علاقوں کو واپسی میں دو سے ڈھائی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد تعلیمی سرگرمیاں پھر شروع ہوجائیں گی۔

وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی حکومت اور عطیہ دہندگان کے تعاون سے کراچی میں اسکول چلا رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گدو، سکھر اور کوٹری بیراجوں میں ابھی تک سیلاب کی صورت حال کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں صوبے کے مزید اسکولوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سندھ کی قلیل المدتی حکمت عملی یہ ہے کہ بے گھر طلباء کی تعلیم کے لئے امدادی کیمپوں میں تدریسی مراکز قائم کیے جائیں۔ حکومت کی طویل المدتی حکمت عملی میں سیلاب سے متاثر نہ ہونے والے شہروں میں طلباء کے داخلے میں سہولیات فراہم کرنا اور سیلاب سے تباہ ہونے والے اسکولوں کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کرنا شامل ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت طلباء کو مفت کتابیں اور اسٹیشنری فراہم کرے گی اور ان کی فیسیں معاف کر دے گی۔

اقتصادی جائزہ برائے پاکستان

اقتصادی جائزہ برائے پاکستان 2010-2009 کے مطابق، سندھ کے 46 ہزار 8 سو 60 اسکولوں میں تقریباً 60 لاکھ طلباء داخل ہیں۔جائزے کے مطابق، ان میں سے صرف 12 ہزار 5 سو 70 اسکول نجی شعبے میں ہیں جبکہ باقی تمام سرکاری ہیں۔اقتصادی جائزے میں سندھ میں شرح خواندگی کا تخمینہ 57 فیصد جبکہ ملک بھر میں 61 فیصد لگایا گیا ہے۔

پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافہ

سینٹرل ایشیاء آن لائن کے مطابق خواندگی کے لحاظ سے اعداد و شمار مختلف ہیں۔ پاکستان کے سماجی و معیار زندگی کو جانچنے کا جائزہ 09-2008 کے مطابق، دس سال یا اس سے زائد العمر افراد میں خواندگی کی مجموعی شرح 57 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 2008-2007 میں یہ شرح 56 فیصد تھی۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں (48 فیصد) کی نسبت شہری علاقوں (74 فیصد) میں یہ شرح بلند ہے اور خواتین (45 فیصد) کی نسبت مردوں (69 فیصد) میں خواندگی زیادہ ہے۔

اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم تمام صوبوں میں یہ مساوی نہیں ہے۔صوبائی سطح پر خواندگی کی شرح پنجاب میں 59 فیصد، سندھ میں 59 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 50 فیصد اور بلوچستان میں 45 فیصد ہے۔

جائزہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت تعلیم پر مجموعی ملکی پیداوار کی سب سے کم شرح خرچ کی جاتی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2007-2006 میں تعلیم کے لئے مجموعی ملکی پیداوار کا 2.5 فیصد، 2008-2007 میں 2.47 فیصد، 2009-2008 میں 2.1 فیصد اور 2010-2009 میں 2.0 فیصد مختص کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG