امدادی کارکنوں کے لیے متاثرین کو خوراک اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پہلے ہی کڑا چیلیج بنا ہوا ہے جب کہ بارشوں کا یہ نیا سلسلہ امدادی سرگرمیوں میں مزید رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
ادھر کراچی میں ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور سول ادارے سندھ سمیت دیگر متاثرہ علاقوں میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پوری طرح متحرک ہیں ۔ "ہماری ترجیح سب سے پہلے متاثرین کو بچانا پھر انہیں امداد فراہم کرنا اور اس کے بعد تباہی کا جائزہ لے کر متاثرین کا نقصان پورا کرنا ہے جس کے لیے عالمی امداد کی بھی اپیل کی جائے گی"۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سندھ کے جن علاقوں میں سیلاب سے تباہی کا خطرہ ہے وہاں کے مکینوں کو محفوظ علاقوں کا رخ کرنے کا لیے کہا گیا ہے لیکن یہ لوگ علاقے سے جذباتی لگاؤ کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
صوبہ سندھ میں داخل ہونے والے سیلابی ریلے کی کیا صورت حال ہے اس بارے میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے یعنی پی ڈی ایم اے کے ایک عہدیدار خیر محمّد کلہوڑ نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا " نو لاکھ 60 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گڈو بیراج پہنچا ہے اور اس سے سکھر، گھوٹکی اور کشمور کے اضلاع میں پانی آ گیا ہے جبکہ 90 فیصد لوگوں نے ان علاقوں کو خالی کر دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہماری امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں"
مون سون کی بارشوں سے پاکستان کی تاریخ میں آنے والے اس شدید ترین سیلاب میں سرکاری اطلاعت کے مطابق اب تک 1500 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور ایک کڑور 20 لاکھ سے زائد متاثر ہوۓ ہیں ۔
اس قدرتی آفت میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئےہیں اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آ گئی ہے جبکہ ان گنت املاک ، سڑکوں پلوں کے علاوہ فون اور بجلی کے نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس سیلاب میں ہونے والی تباہی اس نقصان کے برابر ہے جو پاکستان میں اکتوبر 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہوا تھا جس میں تقریباً 80 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔
دیگر ملکوں کی طرح امریکہ نے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے افغانستان سے اپنے چھ ہیلی کاپٹر بھیجے ہیں۔
محمکہ موسمیات کی طرف سے آنے والے دنوں میں بارشوں کے جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔