جنوبی صوبہ سندھ میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 80 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور متاثر ہونے والے 22 اضلاع میں سے بیشتر میں نکاسی آب نا ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی کھڑا ہے۔
بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آکسفیم نے کہا ہے کہ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے ایک ترجمان مبشر اکرم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’آکسفیم یہ سمجتھی ہے کہ موجودہ صورت حال جاری رہی اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر جلد از جلد قابو نا پایا گیا تو اموات کی شرح میں اضافہ ہونے کا خطرہ اور اندیشہ موجود ہے۔‘‘
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے مطابق صوبہ سندھ میں بیماریوں سے بچاؤ کے لیے 34 طبی ٹیمیں کام کر رہی ہیں جب کہ پانی صاف کرنے کی 11 لاکھ گولیاں بھی تقسیم کی گئی ہیں تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مزید ایسی ادویات کی ضرورت ہے۔
گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان نے جنوبی صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بین الاقوامی برادری سے 35 کروڑ 70 لاکھ ڈالر امداد کی ہنگامی امداد کی اپیل کی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یواین ایچ سی آر‘ نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کو درپیش مسائل کی جائزہ رپورٹ کے مطابق خواتین، جسمانی معذوری کا شکار افراد اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو امداد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بعض خاندانوں کی ضروری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈز پانی میں بہہ گئے ہیں جس کی وجہ سے بھی ایسے افراد کو امداد کے حصول میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے 60 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ زیر آب ہے جب کہ 20 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ 10 لاکھ سے زائد مکان یا تو مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں یا پھر اُنھیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق سات لاکھ افراد حکومت کے قائم کردہ تین ہزار عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔