رسائی کے لنکس

سیلاب زدہ علاقوں میں فصلوں کی بروقت کاشت متوقع


ملک کے بالائی حصے میں سیلاب زدہ علاقوں سے پانی کا اخراج تیزی سے جاری ہے اور بیشتر علاقوں میں ربیع کی فصلوں کی کاشت ممکن ہونے کی امید ہے جو ستمبر کے وسط سے نومبر کے اواخر تک کاشت کی جاتی ہیں۔

جولائی کے اواخر میں پاکستان بھر میں موسلادھار بارشوں کے بعد ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا آغاز ہوا جس سے دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ اس قدرتی آفت سے جہاں بنیادی ڈھانچے اور مواصلات کے نظام کو غیر معمولی نقصان ہوا وہیں وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں اور آبپاشی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔

بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے زراعت کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کے جائزے کے بعد متنبہ کیا تھاکہ حالیہ صورتحال کے پیش نظر آئندہ برس پاکستان کو خوارک کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

لیکن منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے کے عہدیدار ترولس بریکے نے صورتحال میں مثبت تبدیلی کی نشان دہی کی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ملک کے بالائی حصے میں سیلاب زدہ علاقوں سے پانی کا اخراج تیزی سے جاری ہے اور بیشتر علاقوں میں ربیع کی فصلوں کی کاشت ممکن ہونے کی امید ہے جو ستمبر کے وسط سے نومبر کے اواخر تک کاشت کی جاتی ہیں۔

ترولس بریکے
ترولس بریکے

اقوام متحدہ کے عہدیدار نے زرعی شعبے کی جلد از جلد بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو لاکھوں کاشت کار گھرانوں کی طویل المدتی بنیاد پر امداد جاری رکھنا ہوگی۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ بحالی کے اس عمل میں کئی مشکلات کا سامنا ہو گا، جن میں متاثرہ کسانوں کو مناسب مقدار میں بیج کی فراہمی اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کے علاوہ زرعی اراضی کو دوبارہ قابل کاشت بنانا سر فہرست ہیں۔

ترولس بریکے نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے نیو یارک میں جاری کی گئی دو ارب ڈالر کی عالمی اپیل میں زراعت کی بحالی سے متعلق درکار وسائل بھی شامل ہیں اور ربیع کی فصلوں کے لیے بیج کی دستیابی کا انحصار اپیل کے جواب میں موصول ہونے والی رقم پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے آبپاشی کے بیس ہزار سے زائد چھوٹے نہری نظام متاثر ہوئے ہیں جب کہ سیلابی ریلے دریاؤں کے اطراف میں واقع زرعی اراضی پر مٹی کی کئی فٹ اونچی تہہ چھوڑ گئے ہیں۔

سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ملک کے کل زرعی رقبے کا تیس فیصد حصہ سیلاب کی زد میں آیاہے، جہاں لاکھوں ایکڑپر کھڑی فصلیں تباہ ہونے کے علاوہ گندم اور کپاس کے ذخائر بھی ضائع ہو گئے ہیں۔

زراعت کے شعبے کی بحالی کے لیے حکومت نے ابتدائی طور پر متاثرہ علاقوں میں پچیس ایکڑ تک زرعی اراضی کے مالکان کو مفت بیج اور کھاد فراہم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ البتہ بین الاقوامی ماہرین نے کہا ہے کہ زراعت پر بھرپور توجہ دینے کی صورت میں بھی اس شعبے کی مکمل بحالی میں دو برس کا عرصہ لگے گا۔

دریں اثنا امریکہ نے پاکستان میں زراعت کے شعبے میں ترقی کے لیے ایک امریکی تنظیم کے اشتراک سے تین کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی محکمہ زراعت نے ون راک انٹرنیشنل نامی تنظیم سے پاکستان میں فروخت کے لیے اشیاء کی ترسیل کے ”فوڈ فار پراگریس“ گرانٹ کی فراہمی کے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔

گرانٹ کے سلسلے میں امریکہ پاکستان میں فروخت کرنے کے لیے ون راک کو بیس ہزار نو سو میٹرک ٹن سویا بین کا تیل فراہم کرے گا۔ ون راک سویابین تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی صوبہ بلوچستان میں زراعت کو جدید بنانے کے لیے استعمال کرے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تین سالہ منصوبے کے دوران امریکی تنظیم اور صنعتی شعبوں کے اہم رہنماؤں کو تربیت، تجارتی نمائشوں اور دیگر مواقع سے مربوط کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ اس منصوبے سے ماہی گیری، کسان اور اشیاء کو محفوظ بنانے والے افراد خراب ہونے والی چیزوں، مثلاً مچھلی، پھل اور سبزیوں کی بہتر دیکھ بھال اور مارکیٹنگ کے قابل ہو جائیں گے، جس سے خوراک کے معیار اور رسد میں بہتری آئے گی، مصنوعات کی زیادہ قیمتوں کے ذریعے صنعتکاروں کی اعانت اور صارفین کے لیے بہتر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG