اسلام آباد —
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ نے کہا ہے کہ رواں سال شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد تک امداد پہنچانے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرین کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
این ڈی ایم اے کے ترجمان ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے اس بار سب سے زیادہ نقصان جنوبی صوبہ سندھ میں ہوا جب کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع اور صوبہ بلوچستان کے بھی کچھ علاقے اس سے متاثر ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ بارشوں کے باعث گھروں کی چھتیں گرنے اور بجلی کا کرنٹ لگنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے لگ بھگ 375 افراد ہلاک جب کہ 1200 سے زخمی بھی ہوئے۔
وائس آف امریکہ کو نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا ’’ 44 لاکھ 47 ہزار 941 افراد متاثر ہوئے، 15 لاکھ سے زائد گھر جزوی اور ایک لاکھ سے زائد مکمل طور پر تباہ ہوئے، ساڑھے 13 ہزار دیہات متاثر ہوئے، 7 لاکھ 66ہزار 818 ایکڑ رقبے پر فصلوں کو نقصان پہنچا اور آٹھ ہزار کے قریب مویشی، ہلاک و لاپتہ ہیں۔‘‘
امدادی کارروائیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ پانچ سو امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں دو لاکھ بیاسی ہزار افراد موجود ہیں۔ ان کے بقول اب تک 36 ہزار خیمے، ادویات اور دیگر اشیائے ضروری متاثرہ علاقوں میں فراہم کیے جاچکے ہیں۔
این ڈی ایم کے ترجمان کے بقول 90 فیصد متاثرہ علاقوں سے کھڑے پانی کی نکاسی ہوچکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں چاول، کپاس اور گنے کی فصلوں کے علاوہ یہاں کاشت کی جانے والی سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔
پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں مون سون کی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملک میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے علاوہ مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ حکومت نے ہونے والے اربوں روپے کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی اپیل بھی کی تھی تاہم اس بار ایسی کوئی عالمی درخواست نہیں کی گئی۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ قبل از وقت کیے جانے والے اقدامات سے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد ملی اور صوبائی حکومتوں اور متلعقہ اداروں کو بھی مختلف پیش بندیوں کی ہدایت کی گئی تھی۔
’’ سارے صوبوں کو پہلے سے خبردار کردیا تھا کہ سیلاب، زلزلے یا کوئی بھی قدرتی آفت آسکتی ہے لہذا آپ (صوبے) اپنے بجٹ میں اس مد میں پیسے رکھیں۔۔۔ اور صوبوں نے 80 فیصد اس پر عمل درآمد بھی کیا۔‘‘
این ڈی ایم اے کے ترجمان ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے اس بار سب سے زیادہ نقصان جنوبی صوبہ سندھ میں ہوا جب کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع اور صوبہ بلوچستان کے بھی کچھ علاقے اس سے متاثر ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ بارشوں کے باعث گھروں کی چھتیں گرنے اور بجلی کا کرنٹ لگنے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے لگ بھگ 375 افراد ہلاک جب کہ 1200 سے زخمی بھی ہوئے۔
وائس آف امریکہ کو نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا ’’ 44 لاکھ 47 ہزار 941 افراد متاثر ہوئے، 15 لاکھ سے زائد گھر جزوی اور ایک لاکھ سے زائد مکمل طور پر تباہ ہوئے، ساڑھے 13 ہزار دیہات متاثر ہوئے، 7 لاکھ 66ہزار 818 ایکڑ رقبے پر فصلوں کو نقصان پہنچا اور آٹھ ہزار کے قریب مویشی، ہلاک و لاپتہ ہیں۔‘‘
امدادی کارروائیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ پانچ سو امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں دو لاکھ بیاسی ہزار افراد موجود ہیں۔ ان کے بقول اب تک 36 ہزار خیمے، ادویات اور دیگر اشیائے ضروری متاثرہ علاقوں میں فراہم کیے جاچکے ہیں۔
این ڈی ایم کے ترجمان کے بقول 90 فیصد متاثرہ علاقوں سے کھڑے پانی کی نکاسی ہوچکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں چاول، کپاس اور گنے کی فصلوں کے علاوہ یہاں کاشت کی جانے والی سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔
پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں مون سون کی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملک میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے علاوہ مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ حکومت نے ہونے والے اربوں روپے کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی اپیل بھی کی تھی تاہم اس بار ایسی کوئی عالمی درخواست نہیں کی گئی۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ قبل از وقت کیے جانے والے اقدامات سے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد ملی اور صوبائی حکومتوں اور متلعقہ اداروں کو بھی مختلف پیش بندیوں کی ہدایت کی گئی تھی۔
’’ سارے صوبوں کو پہلے سے خبردار کردیا تھا کہ سیلاب، زلزلے یا کوئی بھی قدرتی آفت آسکتی ہے لہذا آپ (صوبے) اپنے بجٹ میں اس مد میں پیسے رکھیں۔۔۔ اور صوبوں نے 80 فیصد اس پر عمل درآمد بھی کیا۔‘‘