اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے ہونے والی تباہی اور اس سے متاثرہ افراد کی تعدادگذشتہ چھ سالوں کے دوران دنیا میں آنے والی مختلف تباہ کن آفات کے متاثرین کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
عالمی ادارے کے دفتر برائے انسانی ہمدردی کے ایک ترجمان موریسیو جولیانو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2004ء میں سونامی،2005ء میں پاکستان اور کشمیراوررواں سال ہیٹی میں آنے والے زلزلے میں مجموعی طور پر ایک کروڑ دس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جب کہ پاکستان کے حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 40لاکھ ہوچکی ہے۔
جولیانو نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے سیلاب میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد گذشتہ آفات کی نسبت کم ہے لیکن پاکستان کی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے لیے کروڑوں جب کہ بحالی اور تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔
سیلاب سے زیادہ ترتباہی شمالی صوبے خیبر پختون خواہ میں ہوئی ہے۔وادی سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں چھ لاکھ لوگوں تک براہ راست رسائی تاحال ممکن نہیں اور وہاں ہیلی کاپٹر وں کے ذریعے امدادی کارروائیاں کی جارہی ہیں لیکن پچھلے دو روز سے جاری بارشوں کے باعث ان میں بھی خلل پڑا ہے۔
واضح رہے کہ بحر ہند میں آنے والی سونامی سے 50لاکھ ،شمالی علاقوں اور کشمیر میں اور ہیٹی کے زلزلے میں 30,30لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔
موریسیو جولیانو نے متاثرین سیلاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ایسا شخص جسے سیلاب سے اتنا نقصان پہنچا ہو کہ اسے قلیل یا طویل المدت امداد کی ضرورت ہو عالمی ادارے کی نظر میں وہ متاثرین میں شمار ہوگا۔
دریں اثناء وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے سیلاب کی تباہ کاریوں کا تخمینہ لگائے گی لیکن اس کام میں ان کے بقول ابھی وقت لگے گا۔ ملتان میں سیلاب سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ” ابھی تو تباہ کاریاں جاری ہیں،ان کا اندازہ تب ہوگا جب سیلاب ختم ہوگا“ ۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرکے سیلاب زدگان کی مدد کرے گی۔
ادھر سیلاب سے صوبہ سندھ میں مزید تباہی کی اطلاع ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے میں سینکڑوں دیہات اور قصبے زیرآب آگئے ہیں جب کہ سکھر اور شکارپور کے مضافات میں سیلاب سے متاثرہ افراد سڑکوں،پلوں اور ریلوے لائنوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
حکام کے بقول ان اضلاع میں امدادی کارکن تیزی سے امدادی کیمپ لگا کر متاثرین کوان میں منتقل کرنے اور خوراک کی فراہمی کا عمل شروع کرنے جا رہے ہیں۔