پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاک افغان سرحد پر واقع علاقے میں ڈرون حملے کی معلومات فراہم کی تھیں جس میں اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا۔
ملا منصور کی پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان نے سرکاری طور پر کی ہے تاہم افغان انٹیلی جنس اداے کے مطابق ہفتہ کو ہونے والی اس فضائی کارروائی میں ملا منصور مارے جا چکے ہیں۔
اتوار کو دیر گئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان میں بتایا کہ امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کا تبادلہ وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل سے بھی کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اب تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ولی محمد نامی شخص جس کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تھا 21 مئی کو تفتان کی سرحدی گزرگاہ سے پاکستان میں داخل ہوا اور اس کے پاسپورٹ پر ایران کا ویزہ لگا ہوا تھا۔
یہ شخص تفتان سے کرائے پر حاصل کی جانے والی ایک گاری میں سفر کر رہا تھا جو پاک افغان سرحد پر واقع کوچاکی نامی علاقے میں تباہ شدہ حالت میں ملی۔
ترجمان کے بقول گاڑی کے ڈرائیور کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی جس کی لاش کو اس کے ورثا کے حوالے کر دیا گیا جبکہ دوسری لاش کی شناخت کی تصدیق کے لیے جائے وقوع سے حاصل ہونے والے شواہد اور دیگر متعلقہ معلومات سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے اسپتال میں دو لاشیں لائی گئی تھیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ کوچاکی میں ایک گاڑی پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی ہیں۔ شائع شدہ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں سے ایک غالباً ملا منصور ہو سکتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اس ضمن میں مزید تحقیقات جاری ہیں پاکستان اپنے اس موقف کا اعادہ کرنا چاہتا ہے کہ ڈرون حملے اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور یہ معاملہ بار ہا پہلے بھی امریکہ کے ساتھ اٹھایا جا چکا ہے۔
ان کے بقول افغان مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے سرگرم چار فریقی گروپ کے اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں بھی یہ اعادہ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات ہی واحد قابل عمل راستہ ہے اور اس گروپ نے طالبان سے تشدد ترک کر کے امن بات چیت میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے جنوب مغرب میں امریکی ڈرون طیارے سے پہلی بار کسی اہم عسکریت پسند کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل ڈرون طیاروں سے شمال مغرب میں قبائلی علاقوں میں کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔