رسائی کے لنکس

جنرل راحیل آئندہ ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گے


جنرل راحیل شریف (فائل فوٹو)
جنرل راحیل شریف (فائل فوٹو)

پاکستان کے سابق سفارتکار مسعود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کہ جنرل راحیل کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو مربوط کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف 15 سے 20 نومبر تک امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جسے دونوں ملکوں اور خصوصاً خطے میں سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں خاصا اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

اپنے دورے میں وہ امریکی محکمہ خارجہ اور دفاع کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے جس میں دوطرفہ دلچسپی کے امور، مختلف علاقائی اور عالمی معاملات اور دونوں ملکوں کے مابین دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ وہ افغانستان میں امن عمل اور طالبان کے افغان حکومت سے معطل شدہ مذاکرات میں پیش رفت پر بھی بات کریں گے۔

اس دورے سے قبل گزشتہ ماہ ہی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جس میں صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوششوں کا اعادہ کیا تھا۔

پاکستان نے رواں سال جولائی میں افغان طالبان اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی جس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک ہوئے تھے۔

لیکن ایک ہی ملاقات کے بعد بوجوہ یہ معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا اور پھر افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافے سے اس کے بحال ہونے کی امیدیں خاصی کمزور ہو گئیں۔

پاکستان کے سابق سفارتکار مسعود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جنرل راحیل یقیناً افغانستان کی صورتحال اور امن عمل میں بہتری کے لیے پاکستان کی کوششوں سے امریکی عہدیداروں کو آگاہ کریں گے کیونکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ کا کردار بہرحال بہت اہم ہے اور جسے بھرپور انداز میں ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

"یعنی اگر امریکی حکومت افغانستان کی حکومت کو یہ کہے کہ اپنے تمام تحفظات کو ختم کر کے اپنے نمائندوں کو مذاکرات کے لیے بھیجیں تو حکومت پاکستان (طرف سے) افغان طالبان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے لیکن کوشش کی جا سکتی ہے کہ وہ بھی مذاکرات کی طرف واپس آئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے کیونکہ امریکہ کا کابل میں ایک اچھا خاصا اثرورسوخ ہے اشرف غنی کے ساتھ عبداللہ عبداللہ کے ساتھ۔۔۔ اس میں امریکہ کی بھی ایک بہت اہم ذمہ داری بنتی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو مربوط کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

"کئی ایسے امور ہیں، دہشت گردی کے خلاف مختلف تدابیر اور اشتراک دونوں ممالک کے درمیان بہت ضروری ہے۔ جب وزیراعظم نواز شریف صدر براک اوباما سے ملے تھے تو بڑھتے ہوئے امڈتے ہوئے نئے خطروں کا بھی ذکر کیا گیا تھا، داعش کا ذکر کیا گیا تھا اور پھر اس کے لیے کوئی حکمت عملی، تعاون اور پھر یہ کہ دونوں ممالک کس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور شتراک کر سکتے ہیں۔"

2013ء میں پاکستانی فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا یہ دوسرا دورہ امریکہ ہے۔ ایک سال کے دوران پاکستانی سپہ سالار مختلف ملکوں کے دورے کر چکے ہیں جس میں وہ خاص طور پر دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کوششوں اور ان کے نتائج کو اجاگر کرنے کے علاوہ ان ملکوں سے دفاعی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سرگرداں رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG