پاکستان کے نسبتاً پرامن سمجھے جانے والے شمالی علاقے میں روپوش مشتبہ افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کارروائی میں مصروف ہیں جب کہ علاقے میں سکیورٹی کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔
یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑوں اور فطری حسن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ مرکز ہے اور خصوصاً ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں واقع چوٹیاں سر کرنے آتے ہیں۔
رواں سال کے وسط میں دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے دس غیر ملکی سیاحوں سمیت 11 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں چلاس کے علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے فوج کے دو اور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
ان واقعات کے بعد گلگت بلتستان میں سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن بھی کیا اور متعدد گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن ان واقعات میں ملوث کسی عناصر کے خلاف کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔
بدھ کو چلاس کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار محمد نوید نے وائس آف امریکہ کو علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں جاری آپریشن سے متعلق بعض انٹیلی جنس اطلاعات ملنے کے بعد سکیورٹی کو مزید سخت کیا گیا ہے۔
’’ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ یہاں کچھ لوگوں کے خفیہ ٹھکانے ہیں تو اس لیے ہم نے سکیورٹی بڑھا دی ہے اور ناکوں پر ہر گاڑی کو چیک کیا جا رہا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ پر تشدد واقعات میں ملوث افراد ان ٹھکانوں میں روپوش ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں بھی یہاں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں مسافر بسوں سے لوگوں کو شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کیا چکا ہے۔
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ گلگت بلتستان میں امن کے لیے علاقائی انتظامیہ سے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑوں اور فطری حسن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ مرکز ہے اور خصوصاً ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں واقع چوٹیاں سر کرنے آتے ہیں۔
رواں سال کے وسط میں دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے دس غیر ملکی سیاحوں سمیت 11 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں چلاس کے علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے فوج کے دو اور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
ان واقعات کے بعد گلگت بلتستان میں سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن بھی کیا اور متعدد گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن ان واقعات میں ملوث کسی عناصر کے خلاف کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔
بدھ کو چلاس کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار محمد نوید نے وائس آف امریکہ کو علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں جاری آپریشن سے متعلق بعض انٹیلی جنس اطلاعات ملنے کے بعد سکیورٹی کو مزید سخت کیا گیا ہے۔
’’ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ یہاں کچھ لوگوں کے خفیہ ٹھکانے ہیں تو اس لیے ہم نے سکیورٹی بڑھا دی ہے اور ناکوں پر ہر گاڑی کو چیک کیا جا رہا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ پر تشدد واقعات میں ملوث افراد ان ٹھکانوں میں روپوش ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں بھی یہاں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں مسافر بسوں سے لوگوں کو شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کیا چکا ہے۔
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ گلگت بلتستان میں امن کے لیے علاقائی انتظامیہ سے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔