پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ میں جوان سال لڑکی کی درخت سے لٹکی ہوئی لاش کے واقعے کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔
ضلع لیہ کے علاقے چوبارہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سعادت علی چوہان نے وائس آف امریکہ کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو نصف شب کے قریب گاؤں نواں کوٹ کے ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کی بیٹی گھر سے غائب ہے۔
"پولیس وہاں پہنچی اور اس نے بھی تلاش شروع کی تو گاؤں سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھیتوں میں اس لڑکی کی لاش ایک درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی ملی۔ ہم نے لیڈی ڈاکٹر سے درخواست کی ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم کر کے موت کی وجہ بتائیں تاکہ تحقیقات کی سمت متعین کی جا سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کی عمر 20 سال کے قریب ہے اور اس کے والد کے مطابق لڑکی کے علاوہ گھر سے کچھ کپڑے اور زیور بھی غائب تھا۔
ڈی ایس پی کے بقول لڑکی کے والد نے ایک لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کے مبینہ تعلقات کا ذکر کیا ہے لیکن فوری طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
"ہم نے جب لاش دیکھی تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ خودکشی نہیں ہے بلکہ قتل ہے۔۔۔ پوسٹ مارٹم کے بعد پتا چلے گا کہ کہیں قتل سے پہلے اس کے ساتھ جنسی زیادتی تو نہیں ہوئی یا پھر تفتیش ہو گی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی جب گھر واپس آئی ہو تو گھر والوں نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا ہو۔"
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ خواتین پر تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ملک میں ہرسال ایک ہزار سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔
گزشتہ ماہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک خاتون کو اس کے گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے کے پاداش میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
اس واقعے نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی اور اس کی امریکہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے مذمت بھی کی تھی۔
ضلع لیہ کے علاقے چوبارہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سعادت علی چوہان نے وائس آف امریکہ کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو نصف شب کے قریب گاؤں نواں کوٹ کے ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کی بیٹی گھر سے غائب ہے۔
"پولیس وہاں پہنچی اور اس نے بھی تلاش شروع کی تو گاؤں سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھیتوں میں اس لڑکی کی لاش ایک درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی ملی۔ ہم نے لیڈی ڈاکٹر سے درخواست کی ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم کر کے موت کی وجہ بتائیں تاکہ تحقیقات کی سمت متعین کی جا سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کی عمر 20 سال کے قریب ہے اور اس کے والد کے مطابق لڑکی کے علاوہ گھر سے کچھ کپڑے اور زیور بھی غائب تھا۔
ڈی ایس پی کے بقول لڑکی کے والد نے ایک لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کے مبینہ تعلقات کا ذکر کیا ہے لیکن فوری طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
"ہم نے جب لاش دیکھی تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ خودکشی نہیں ہے بلکہ قتل ہے۔۔۔ پوسٹ مارٹم کے بعد پتا چلے گا کہ کہیں قتل سے پہلے اس کے ساتھ جنسی زیادتی تو نہیں ہوئی یا پھر تفتیش ہو گی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی جب گھر واپس آئی ہو تو گھر والوں نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا ہو۔"
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ خواتین پر تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ملک میں ہرسال ایک ہزار سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔
گزشتہ ماہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک خاتون کو اس کے گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے کے پاداش میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
اس واقعے نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی اور اس کی امریکہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے مذمت بھی کی تھی۔