پاکستان میں عدالت عدلیہ کی ایک عمارت کے باہر غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خاتون فرزانہ کے والد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔
منگل کو پچیس سالہ خاتوں کے والد اور بھائی سمیت کئی افراد نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر اینٹوں سے حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا تھا اور مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر اس واقعے کی خبروں کے بعد عالمی سطح پر اس کی شدید الفاظ مذمت میں کی گئی تھی۔
پولیس نے مقتولہ کے والد محمد عظیم کو ہفتہ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا تھا اور عدالت نے ملزم کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں دینے کی اجازت دے دی۔
فرزانہ پر حملہ کرنے کی وجہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر اپنی پسند سے اس کی شادی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ کی طرف سے بھی اس قتل پر شدید رد عمل سامنے آیا اور پھر جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے اپنے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو فوری کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی۔
اس واقعے کا پاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی از خود نوٹس لے چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے اب تک کارروائی کرتے ہوئے فرزانہ کے چند رشتہ داروں سمیت پانچ لوگوں کو تحویل میں لیا ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 870 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے جو کہ ان کے بقول حقیقی اعداد و شمار سے کم ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
منگل کو پچیس سالہ خاتوں کے والد اور بھائی سمیت کئی افراد نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر اینٹوں سے حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا تھا اور مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر اس واقعے کی خبروں کے بعد عالمی سطح پر اس کی شدید الفاظ مذمت میں کی گئی تھی۔
پولیس نے مقتولہ کے والد محمد عظیم کو ہفتہ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا تھا اور عدالت نے ملزم کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں دینے کی اجازت دے دی۔
فرزانہ پر حملہ کرنے کی وجہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر اپنی پسند سے اس کی شادی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ کی طرف سے بھی اس قتل پر شدید رد عمل سامنے آیا اور پھر جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے اپنے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو فوری کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی۔
اس واقعے کا پاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی از خود نوٹس لے چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے اب تک کارروائی کرتے ہوئے فرزانہ کے چند رشتہ داروں سمیت پانچ لوگوں کو تحویل میں لیا ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 870 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے جو کہ ان کے بقول حقیقی اعداد و شمار سے کم ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔