اسلام آباد —
سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو جی کے 545 ویں یوم پیدائش کی تین روزہ تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے پاکستان آنے والے ہزاروں سکھ یاتری پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں جمع ہیں۔
ان تقریبات میں اکھنڈ پاٹ (مقدس کتاب کی 48 گھنٹوں تک مسلسل پڑھائی)، نگر کیرتن (مذہبی گیت) اور علاقے میں مختلف مقدس مقامات اور گرودواروں کی یاترا شامل ہے۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے لاہور کے رہائشی ترنجیت سنگھ برسوں سے دوسرے ملکوں سے آنے والے سکھ یاتریوں کی دیکھ بھال اور ان کی یاترا میں معاونت فراہم کرتے آرہے ہیں۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سکھوں کے لیے نومبر کے مہینے کی یہ یاترا بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’’یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر سکھ کی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو کہ ایک بار اسے ننکانہ صاحب اور باقی گرودواروں کے درشن ہوجائیں۔ اس سے بڑی بات کچھ نہیں ہوتی کہ انھیں دیدار درشن کا موقع مل گیا کہ جہاں سے ان کا مذہب شروع ہوا وہاں وہ موجود ہیں اور ان مذہبی رسومات میں شریک ہیں۔‘‘
ترنجیت کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں عوامی سطح پر رابطوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے جس سے سکھ یاتری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
’’پاکستانی عوام اور مسلم بھائیوں کا بڑا پیار ہے کہ وہ ان سکھ یاتریوں کو جب دیکھتے ہیں یا ملتے ہین ان سے پیار جتاتے ہیں۔۔۔اکثر ہم ایک بات کہتے ہیں کہ نؤں ماس دا رشتہ یعنی کہ جس طرح ناخن اور گوشت کا تعلق ہوتا ہے اس طرح کا رشتہ ان لوگوں کا بن چکا ہے پاکستان کی سرزمین سے ان مقدس و تاریخی عمارتوں سے اور پھر یہ مضبوط ہوکر ان مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ننکانہ صاحب میں تین روزہ تقریبات کے بعد بھارت سے آئے سکھ یاتری حسن ابدال میں گرودوارہ پنجہ صاحب اور پھر لاہور میں گرودوارہ ڈیرہ صاحب جائیں گے اور 25 نومبر کو ان کی یہ یاترا اختتام پذیر ہوگی۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے سکھ یاتریوں کو سفر اور قیام کی سہولتوں کے لیے مختلف اقدامات کے علاوہ مکمل سکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔
ان تقریبات میں اکھنڈ پاٹ (مقدس کتاب کی 48 گھنٹوں تک مسلسل پڑھائی)، نگر کیرتن (مذہبی گیت) اور علاقے میں مختلف مقدس مقامات اور گرودواروں کی یاترا شامل ہے۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے لاہور کے رہائشی ترنجیت سنگھ برسوں سے دوسرے ملکوں سے آنے والے سکھ یاتریوں کی دیکھ بھال اور ان کی یاترا میں معاونت فراہم کرتے آرہے ہیں۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سکھوں کے لیے نومبر کے مہینے کی یہ یاترا بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’’یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر سکھ کی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو کہ ایک بار اسے ننکانہ صاحب اور باقی گرودواروں کے درشن ہوجائیں۔ اس سے بڑی بات کچھ نہیں ہوتی کہ انھیں دیدار درشن کا موقع مل گیا کہ جہاں سے ان کا مذہب شروع ہوا وہاں وہ موجود ہیں اور ان مذہبی رسومات میں شریک ہیں۔‘‘
ترنجیت کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں عوامی سطح پر رابطوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے جس سے سکھ یاتری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
’’پاکستانی عوام اور مسلم بھائیوں کا بڑا پیار ہے کہ وہ ان سکھ یاتریوں کو جب دیکھتے ہیں یا ملتے ہین ان سے پیار جتاتے ہیں۔۔۔اکثر ہم ایک بات کہتے ہیں کہ نؤں ماس دا رشتہ یعنی کہ جس طرح ناخن اور گوشت کا تعلق ہوتا ہے اس طرح کا رشتہ ان لوگوں کا بن چکا ہے پاکستان کی سرزمین سے ان مقدس و تاریخی عمارتوں سے اور پھر یہ مضبوط ہوکر ان مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ننکانہ صاحب میں تین روزہ تقریبات کے بعد بھارت سے آئے سکھ یاتری حسن ابدال میں گرودوارہ پنجہ صاحب اور پھر لاہور میں گرودوارہ ڈیرہ صاحب جائیں گے اور 25 نومبر کو ان کی یہ یاترا اختتام پذیر ہوگی۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے سکھ یاتریوں کو سفر اور قیام کی سہولتوں کے لیے مختلف اقدامات کے علاوہ مکمل سکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔