پاکستان نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا رواں ہفتے اسلام آباد کا اہم دورہ طرفین کوعلاقائی اُمور پر ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا اور امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
امریکی اور پاکستانی حکام نے ہلری کلنٹن کے دورے کی حتمی تاریخ کے بارے میں ابھی کوئی اعلان نہیں کیا ہے تاہم مقامی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کی اسلام آباد آمد 20 اکتوبر کو متوقع ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، اورغلط فہمیوں کو دور کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
’’آپس میں ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننا اور دوسرے کا سمجھنے کے عمل میں ڈیڈلاک (تعطل) نہیں ہونا چاہیئے․ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ایک دوسرے کی غلط فہیماں دور کی جا سکتی ہیں۔‘‘
وزیر اطلاعات نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کےتعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔’’کسی ایک مخصوص ایکشن یا بیان سے ان پہ زد نہیں پہنچتی‘‘۔
پاکستانی وزیر کا اشارہ بظاہر ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن اور سابق امریکی ایڈمرل مائیک ملن کے حالیہ پاکستان مخالف بیان کی طرف تھا۔
دو مئی کو ایبٹ آباد کے ایک حساس فوجی علاقے میں پاکستان کو اطلاع دیے بغیر امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے مفرور سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنا تھا اور احتجاجاََ پاکستانی فوجی حکام نے امریکہ کے ساتھ تعاون کو بھی محدود کر دیا تھا۔
صورت حال ستمبر میں اُس وقت مزید سنگین ہو گئی جب اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے چند روز قبل امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے ایک بیان میں الزام لگایا کہ افغانستان میں امریکی اور غیر ملکی اہداف پر حملے کرنے والے دہشت گرد دراصل یہ کارروائیاں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی آیس آئی کی ایما پر کر رہے ہیں۔
لیکن پاکستانی سیاسی و فوجی قائدین نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ فوج کو بدنام کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کی قربانیوں کی اہمیت کم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس کوئی بھی ایسی معلومات ہیں جس سے آگے چل کر دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو مناسب ذرائع سے پاکستان کے ساتھ اس کا تبادلہ کرے تاکہ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے ایسے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان اور پاکستان کے لیے صدر اوباما کے خصوصی نمائندے مارک گراسمن نے بھی اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے علاوہ اُنھوں نےفوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقاتیں کیں۔
اتوار کے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ امریکی ایلچی کو پاکستانی وزارت خارجہ نے کُل جماعتی کانفرنس کی قرارداد کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا اور امریکی وزیر خارجہ سے بات چیت میں بھی یہی موضوع زیر بحث آئے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملک چاہتے ہیں کہ تعلقات بہتر ہوں۔’’اور جو اشارے مل رہے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم درست سمت کی طرف گامزن ہیں۔‘‘