پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ رچرڈ ہالبروک کے انتقال سے بلاشبہ وقتی طور پر ایک خلا پیدا ہوگا تاہم اس وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات یا امدادی منصوبے متاثر نہیں ہوں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہالبروک سفارتکاری میں ایک بہت بڑا نام تھا اور جس محنت و لگن کے ساتھ اُنھوں نے اپنی آخری ذمہ داری کونبھایا یہ ان ہی کا خاصا تھا۔ عبدالباسط نے کہا کہ ”ہمیں یقینا ان کے جانے سے بڑا دکھ ہوا ہے“ ۔
ترجمان نے کہا کہ جہاں تک افغانستان اور پاکستان کی بات ہے تو یقینا ہالبروک کے جانے سے ایک ’خلا ‘ تو پیدا ہوا ہے۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہو گی کہ جس طرح آنجہانی امریکی سفارت خطے میں قیام امن کے لیے افغانستان میں جنگ کا جلدی خاتمہ چاہتے تھے اُن کے انتقال کے بعد بھی امریکہ اور پاکستان اس ہدف کے حصول کے لیے تعاون جاری رکھیں۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین اسٹریٹیجک ڈائیلاگ پر امریکی خصوصی ایلیچی کے انتقال سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ ہالبروک کا ماننا تھا کہ معاملات کو قومی اداروں کے تحت فروغ ملنا چاہیے۔ ”ان کا خاص زور تھا کہ عوامی سطح پر رابطے بڑھنے چاہئیں اور پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا فائدہ براہ راست عوام کو ہونا چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں جو بھی ان کی جگہ آئے وہ ہالبروک کی روایت کو برقرار رکھے گا“۔
عبدالباسط نے کہا کہ رچرڈ ہالبروک بہت ذہین اور ایک کہنہ مشق سفارتکار تھے اور مختلف معاملات سے متعلق اُن کی فہم وفراست بلا کی تھی ۔ اُنھوں نے کہا کہ ہالبروک نے جو روایت چھوڑی ہے اُس سے پیشہ ور سفارت کار بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اوراُن کی خدمات کو آنے والے دنوں میں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے کہا کہ رچرڈ ہالبروک کے انتقال سے واشنگٹن میں اسلام آباد کی ’لابی‘ تھوڑی سی کمزور ہو گی اور اس تناظر میں خطے کے لیے نئے سفارت کار کی تعیناتی کے فیصلے کے بعد اُسے زمینی حالات سے آگاہ کرنا پاکستانی سفارت کاروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔
تنویراحمد خان نے کہا کہ ہالبروک منفرد شخصیت کے مالک تھے ” سفارت کاری میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑی دھیمی بات کر نی چاہیے ، کمزور سی بات کرنے چاہیے وہ اس سے متفق نہیں تھے۔ وہ تجزیہ کرتے تھے اور جب اپنے نتائج پر پہنچتے تھے تو پھر پرزور انداز میں اُنھیں حاصل کرنے کی جستجو کرتے تھے“۔
اُنھوں نے کہا کہ ہالبروک نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بھی مصالحت چاہتے تھے اور ”یہ پیغام بہت قابل قدر تھا“۔ سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ہالبروک ”ٹھیک ٹھاک کھرے آدمی تھی اور بہت زیادہ پیچیدہ سفارت کاری نہیں کرتے تھے ، وہ کھل کے بات کرتے تھے اور بڑے پرزور انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے“۔
صدر براک اوباما نے جنوری 2009ء میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد رچرڈ ہالبروک کو افغانستان اور پاکستان کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد امریکی خصوصی ایلچی نے علاقے کے 20 سے زائد دورے کیے ۔
اُنھوں نے پاکستان میں اپنی ملاقاتوں کو صرف سیاسی اور عسکری قیادت تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ سول سوسائٹی ، میڈیا کے نمائندوں اور اُن خاندانوں سے بھی براہ راست ملاقاتیں کیں جو شدت پسندی اورملک میں آنے والے حالیہ سیلاب سے متاثرہوئے۔
سابق سفارت کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ رچرڈ ہالبروک کے علاقائی دورے اس بات کے غمازتھے کہ پاکستان اور افغانستان میں استحکام امریکہ کی ترجیحات میں سرفہرست اور انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔