اسلام آباد —
اقوام متحدہ نے 30 اگست کو جبری گمشدگی کے متاثرین کا عالمی دن قرار دے رکھا ہے اور جمعہ کو اس مناسبت سے حقوق انسانی کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں اس مسئلے کے سدِ باب کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کو سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں نے گزشتہ ایک دہائی سے نہ صرف متاثرین اور ان کے اہل خانہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کو عدم تحفظ کا شکار کر رکھا ہے۔
زہرہ یوسف نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
ایچ آر سی پی نے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ حکومت ریاستی اداروں کو حکم جاری کریں کہ وہ شہریوں کو اغوا، ان کو خفیہ جیلوں میں رکھنے یا ان کو قتل کرنے اور ان کی لاشوں کو دفن کرنے جیسے عمل سے خود کو باز رکھیں، جب کہ حکومت متاثرین کے خاندانوں کے لیے تلافی کی رقم کا بندوبست بھی کرے۔
ایچ آر سی پی کے علاوہ بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری گمشدگی سے تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کرے۔
پاکستان میں جبری گمشیدیوں یا لاپتہ افراد کے معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کرتی رہی ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لے رکھا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف خود اور اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماء جبری گمشیدگیوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں کہ کسی ریاستی ادارے کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے مشتبہ افراد کو زیر حراست رکھ سکے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی دانیال عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے جبری گمشدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں ریاستی اداروں کے درمیان اشتراک میں اضافہ اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد شامل ہیں۔
تاہم اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اس عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے متعلقہ قوانین کا از سر نو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔
سلامتی سے متعلق اداروں کا موقف رہا ہے کہ قوانین میں پائے جانے والے سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث بیشتر افراد عدالتوں سے ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس وجہ سے بسا اوقات انٹیلی جنس اداروں کو انھیں خفیہ مقامات پر اپنی تحویل میں رکھنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کو سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں نے گزشتہ ایک دہائی سے نہ صرف متاثرین اور ان کے اہل خانہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کو عدم تحفظ کا شکار کر رکھا ہے۔
زہرہ یوسف نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
ایچ آر سی پی نے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ حکومت ریاستی اداروں کو حکم جاری کریں کہ وہ شہریوں کو اغوا، ان کو خفیہ جیلوں میں رکھنے یا ان کو قتل کرنے اور ان کی لاشوں کو دفن کرنے جیسے عمل سے خود کو باز رکھیں، جب کہ حکومت متاثرین کے خاندانوں کے لیے تلافی کی رقم کا بندوبست بھی کرے۔
ایچ آر سی پی کے علاوہ بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری گمشدگی سے تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کرے۔
پاکستان میں جبری گمشیدیوں یا لاپتہ افراد کے معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کرتی رہی ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لے رکھا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف خود اور اُن کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماء جبری گمشیدگیوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں کہ کسی ریاستی ادارے کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے مشتبہ افراد کو زیر حراست رکھ سکے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی دانیال عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے جبری گمشدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں ریاستی اداروں کے درمیان اشتراک میں اضافہ اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد شامل ہیں۔
تاہم اُنھوں نے تسلیم کیا کہ اس عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے متعلقہ قوانین کا از سر نو جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔
سلامتی سے متعلق اداروں کا موقف رہا ہے کہ قوانین میں پائے جانے والے سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث بیشتر افراد عدالتوں سے ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس وجہ سے بسا اوقات انٹیلی جنس اداروں کو انھیں خفیہ مقامات پر اپنی تحویل میں رکھنا پڑتا ہے۔