انسانی فلاح و بہبود میں مصروف کارکنوں کی خدمات کا اعتراف اور خلقِ خدا کی بھلائی کے اس عمل کے دوران ہلاک ہونے والوں کی یاد میں اقوام متحدہ کا ادارہ 19 اگست دنیا بھر میں ’’انسان دوستی‘‘ کے عالمی دن کے طور پر مناتا ہے۔
یہ فیصلہ تنظیم نے آج سے ٹھیک نو سال قبل 2003ء میں بغداد کے ایک ہوٹل پر بم دھماکے میں اقوام متحدہ کے 22 کارکنوں کی ہلاکت کے بعد کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امدادی کارکن انسانی فطرت کا بہترین مظہر ہیں۔ مگر اس کار خیر میں مصروف افراد بشمول اقوام متحدہ کے عملے کے خلاف تشدد کے بڑھتے رجحان پر انھوں نے گہری تشویش کا اظہار بھی کیا۔
پاکستان میں بھی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیوں کے امدادی منصوبوں سے لاکھوں مصیبت زدہ خاندان مستفید ہو رہے ہیں اور ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال کے اواخر تک ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی امدادی تنظیموں کے ساتھ منسلک غیر ملکیوں کی تعداد 200 سے زائد جب کہ مقامی کارکنوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔
مگر حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات کے اضافے کے بعد خاص طور پر غیر ملکی عملے کی تعداد میں کمی آئی ہے جب کہ امدادی سرگرمیوں کا دائرہ بھی محدود کیا گیا ہے۔
سن 2009ء سے اب تک پاکستان میں غیر ملکیوں سمیت 20 سے زائد امدادی کارکن ہلاک جب کہ اتنی ہی تعداد میں اغوا کیے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ قدرتی اور انسان کی پیدا کردہ آفات کی زد میں رہنے والے اس ملک میں امدادی سرگرمیاں حالیہ برسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔
’’ان فلاحی کاموں کے لیے جہاں امداد دینے والے ملکوں کی طرف سے فراخدلانہ مالی معاونت کا تسلسل ضروری ہو گیا ہے وہیں امدادی منصبوں سے منسلک افراد کی سلامتی بھی ناگزیر ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو اس قدر بڑی تعداد میں آفات کا سامنا رہا ہے کہ امدادی منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ اس صورت حال کے پیش نظر اقوام متحدہ پاکستان کے لیے مزید مالی امداد کا مطالبہ کر رہا ہے۔
’’بدقسمتی سے رواں سال کے دوران اور 2011ء میں امدادی کاموں سے منسلک ہمارے بعض ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں امدادی کارکنوں کی سلامتی کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں مگر قطع نظر ان مشکلات کے اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی ادارے اپنی سرگرمیان جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں اس سال کوئٹہ میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے 60 سالہ برطانوی ڈاکٹر خلیل ڈیل کو اغواء کرنے کے بعد تاوان کی رقم نہ ملنے پر اپریل کے اواخر میں قتل کر کے اُن کی لاش سڑک کے کنارے پھینک دی گئی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ سال اگست میں لاہور میں قیام پذیر امدادی کاموں کے ماہر 70 سالہ امریکی شہری وارن وائن سٹین کو مبینہ طور پر القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ان کے گھرسے اغواء کر لیا تھا جو تاحال لاپتا ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکام اٹلی اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے دو امدادی کارکنوں کا بھی تاحال سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں جنھیں گزشتہ سال ملتان سے اغواء کیا گیا تھا۔
غیر ملکی امدادی تنظیموں سے منسلک عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکہ کی ایما پر ایک مقامی ڈاکٹر نے ہپیٹائٹس کے ٹیکوں کی جعلی مہم چلا کر امدادی تنظیموں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان اور بعض دیگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی مہم پر پابندی جب کہ کراچی میں عالمی ادارہ صحت کے عملے پر گزشہ ماہ پولیو کے خلاف مہم کے دوران حملے بھی امدادی کارکنوں کے بقول ایبٹ آباد میں چلائی گئی جعلی مہم کا ردعمل ہیں۔
اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیسی ونسٹن نے اعتراف کیا کہ پاکستان کو حالیہ برسوں میں تواتر سے آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے حکومتی سطح پر ان سے نمٹنے کی استعداد اور صلاحیت میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آئی ہے جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ سن 2010ء اور گزشتہ سال تباہ کن سیلابوں سے متاثرہ خاندانوں کی امداد اور بحالی کے منصوبے جاری ہیں جب کہ خیبر پختون خواہ سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث اہنے علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد کا انحصار بھی ان امدادی سرگرمیوں پر ہے۔
اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان پر خشک سالی کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے جس کے ممکنہ اثرات نے پہلے سے دباؤ کا شکار اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی تنظیموں کو مزید تشویش میں متبلا کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ تنظیم نے آج سے ٹھیک نو سال قبل 2003ء میں بغداد کے ایک ہوٹل پر بم دھماکے میں اقوام متحدہ کے 22 کارکنوں کی ہلاکت کے بعد کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امدادی کارکن انسانی فطرت کا بہترین مظہر ہیں۔ مگر اس کار خیر میں مصروف افراد بشمول اقوام متحدہ کے عملے کے خلاف تشدد کے بڑھتے رجحان پر انھوں نے گہری تشویش کا اظہار بھی کیا۔
پاکستان میں بھی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیوں کے امدادی منصوبوں سے لاکھوں مصیبت زدہ خاندان مستفید ہو رہے ہیں اور ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
ان فلاحی کاموں کے لیے جہاں امداد دینے والے ملکوں کی طرف سے فراخدلانہ مالی معاونت کا تسلسل ضروری ہو گیا ہے وہیں امدادی منصبوں سے منسلک افراد کی سلامتی بھی ناگزیر ہے۔اسٹیسی ونسٹن
گزشتہ سال کے اواخر تک ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی امدادی تنظیموں کے ساتھ منسلک غیر ملکیوں کی تعداد 200 سے زائد جب کہ مقامی کارکنوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔
مگر حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات کے اضافے کے بعد خاص طور پر غیر ملکی عملے کی تعداد میں کمی آئی ہے جب کہ امدادی سرگرمیوں کا دائرہ بھی محدود کیا گیا ہے۔
سن 2009ء سے اب تک پاکستان میں غیر ملکیوں سمیت 20 سے زائد امدادی کارکن ہلاک جب کہ اتنی ہی تعداد میں اغوا کیے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ قدرتی اور انسان کی پیدا کردہ آفات کی زد میں رہنے والے اس ملک میں امدادی سرگرمیاں حالیہ برسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔
’’ان فلاحی کاموں کے لیے جہاں امداد دینے والے ملکوں کی طرف سے فراخدلانہ مالی معاونت کا تسلسل ضروری ہو گیا ہے وہیں امدادی منصبوں سے منسلک افراد کی سلامتی بھی ناگزیر ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو اس قدر بڑی تعداد میں آفات کا سامنا رہا ہے کہ امدادی منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ اس صورت حال کے پیش نظر اقوام متحدہ پاکستان کے لیے مزید مالی امداد کا مطالبہ کر رہا ہے۔
’’بدقسمتی سے رواں سال کے دوران اور 2011ء میں امدادی کاموں سے منسلک ہمارے بعض ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں امدادی کارکنوں کی سلامتی کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں مگر قطع نظر ان مشکلات کے اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی ادارے اپنی سرگرمیان جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں اس سال کوئٹہ میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے 60 سالہ برطانوی ڈاکٹر خلیل ڈیل کو اغواء کرنے کے بعد تاوان کی رقم نہ ملنے پر اپریل کے اواخر میں قتل کر کے اُن کی لاش سڑک کے کنارے پھینک دی گئی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ سال اگست میں لاہور میں قیام پذیر امدادی کاموں کے ماہر 70 سالہ امریکی شہری وارن وائن سٹین کو مبینہ طور پر القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ان کے گھرسے اغواء کر لیا تھا جو تاحال لاپتا ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکام اٹلی اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے دو امدادی کارکنوں کا بھی تاحال سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں جنھیں گزشتہ سال ملتان سے اغواء کیا گیا تھا۔
غیر ملکی امدادی تنظیموں سے منسلک عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے امریکہ کی ایما پر ایک مقامی ڈاکٹر نے ہپیٹائٹس کے ٹیکوں کی جعلی مہم چلا کر امدادی تنظیموں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان اور بعض دیگر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے انسداد پولیو کی مہم پر پابندی جب کہ کراچی میں عالمی ادارہ صحت کے عملے پر گزشہ ماہ پولیو کے خلاف مہم کے دوران حملے بھی امدادی کارکنوں کے بقول ایبٹ آباد میں چلائی گئی جعلی مہم کا ردعمل ہیں۔
اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیسی ونسٹن نے اعتراف کیا کہ پاکستان کو حالیہ برسوں میں تواتر سے آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے حکومتی سطح پر ان سے نمٹنے کی استعداد اور صلاحیت میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آئی ہے جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ سن 2010ء اور گزشتہ سال تباہ کن سیلابوں سے متاثرہ خاندانوں کی امداد اور بحالی کے منصوبے جاری ہیں جب کہ خیبر پختون خواہ سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث اہنے علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد کا انحصار بھی ان امدادی سرگرمیوں پر ہے۔
اسٹیسی ونسٹن کہتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان پر خشک سالی کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے جس کے ممکنہ اثرات نے پہلے سے دباؤ کا شکار اقوام متحدہ اور دیگر فلاحی تنظیموں کو مزید تشویش میں متبلا کر دیا ہے۔