لندن کے اخبار فنانشیل ٹائمز کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے پیش نظر پاکستان بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم یف سے کہے گا کہا اُسے دیے جانے والے دس ارب ڈالر قرضے کی شرائط نرم کی جائیں۔
جمعہ کو شائع کی گئی اپنی اس خبر میں اخبار نے کہا ہے کہ پاکستانی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ آئندہ ہفتے واشنگٹن جائیں گے جہاں وہ آئی ایم ایف سے 2008 ء میں دیے جانے والے قرضے کے ڈھانچے کا ازسرِنو جائزہ لینے یا پھر پاکستان کو نیا قرضہ دینے کی درخواست کریں گے۔
پاکستان کی درخواست پرا قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعرات کوایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں سیکرٹری جنرل بان گی مون نے بین الاقوامی برادری سے سیلاب زدگان کے لیے فراخدلانہ امداد کرنے پر زور دیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک اپنی تاریخ کی بد ترین قدرتی آفت سے دوچار ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیلابوں میں 1500 افراد ہلاک، دو کروڑ متاثر جبکہ مالی نقصانات کا تخمینہ 43 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اوریہ آفت ایک ایسے وقت آئی ہے جب حکومت انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلر ی کلنٹن نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس مشکل وقت میں پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور تعمیر نو میں اُس کی بھرپور مدد کرے گا۔ انھوں نے پاکستان کے لیے امریکی امداد میں اضافے کا اعلان بھی کیا جو نو کروڑ سے بڑھ کر 15 کروڑڈالر ہو گئی ہے۔
اس سے قبل ہلری کلنٹن نے پاکستان ریلیف فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا جس کے ذریعے امریکی شہری پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے عطیات دے سکیں گے۔ یورپی یونین نے بھی 18 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ برطانیہ کی طرف سے تقریباََ دس کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
جمعرات کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے اپنی اپیل میں اضافہ کرتے ہوئے اسے سات کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کردیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے اپنی ہنگامی اپیل 14کروڑ ڈالر کردی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو امدادی سرگرمیوں کے لیے30 لاکھ ڈالر دے گا جبکہ تعمیر نو کے لیے اس نے آئندہ دو سالوں کے لیے دو ارب ڈالر دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ سعودی عرب نے آٹھ کروڑ ڈالر سیلاب زدگان کے لیے دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان میں بھی سیلاب زدگان کے لیے کی گئی اپیل کی مد میں تقریباََ تین کروڑ ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔