اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیداروں کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت بین الاقوامی تنظیموں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتی ہے اور ملک کو درپیش معاشی مسائل پر کسی سیاسی دباؤ کو تسلیم نہیں کرے گی۔
حال ہی میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے چھ ارب ستر کروڑ ڈالر کے قرضے کی منظوری کے بعد مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر مسعود احمد کی سربراہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے وفد کا اسلام آباد کا یہ پہلا دورہ ہے۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق اس دورے کا مقصد معاشی اور توانائی کے شعبے میں اہم اصلاحات پر بات چیت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قیادت سے ان پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کرنا بھی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں آئی ایم ایف کے وفد سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک نئی اور باصلاحیت ٹیم نا صرف ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے پرعزم ہے بلکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شب و روز کام میں مصروف ہے۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ حکومت کے اقتصادی شعبے میں اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آئے گی۔ زرمبادلہ میں کمی کی وجہ سے حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ ماضی میں حاصل کردہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگا۔
حکام کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.4 ارب ڈالر ہیں جبکہ رواں سال حکومت نے پرانے قرضے کی تین ارب ڈالر کی قسط ادا کرنا ہے۔
دریں اثناء دارالحکومت میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیر خزانہ نے آئی ایم سے قرضہ حاصل کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ یہ حکومت کے بنائے گئے پروگرام کے تحت حاصل کیا گیا ہے۔
’’آئی ایم ایف نے ہمیں کوئی خیرات نہیں دی۔ ہم اس کے ممبر ہیں اور قرضہ لینا ہمارا حق ہے اگر بڑے مغربی ممبر ممالک لے سکتے ہیں۔ ممبر اور با وقار ممبر کی حیثیت سے بہت برا ہوتا اگر ہم قرضے کا پروگرام نا لیتے اور وہاں پاکستان کو بطور نادھندہ پیش کرتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اپنے اخراجات میں آخری حد تک کمی کردی ہے اور اب اس میں مزید کمی کی گنجائش نہیں۔
’’لمبے اور مشکل راستے پر پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے وہ قدم اٹھا لیا ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہے کہ یہ درست سمت ہے تو ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے اور تنقید کرنے والے سمجھ جائیں گے جب تین سال بعد پاکستان کا شمار ابھرتی ہوئی عالمی منڈیوں میں ہوگا۔‘‘
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے معیشت کی بحالی سے متعلق پالیسی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اصلاحات کو نافذ کرنے کی اہلیت موجود ہے۔
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف مریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں۔
’’ریفارمڈ اکانومی کو چلانا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسی اور اصلاحات کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ اب کیونکہ حکومتوں کا دور بھی پانچ پانچ سال کا ہونا شروع ہوگیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ مکمل کریں گی جو کچھ انہوں نے شروع کیا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا پاکستان سے کہنا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں مراعات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ اور بجٹ خسارے میں کمی کرے۔
حال ہی میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے چھ ارب ستر کروڑ ڈالر کے قرضے کی منظوری کے بعد مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر مسعود احمد کی سربراہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے وفد کا اسلام آباد کا یہ پہلا دورہ ہے۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق اس دورے کا مقصد معاشی اور توانائی کے شعبے میں اہم اصلاحات پر بات چیت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قیادت سے ان پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کرنا بھی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں آئی ایم ایف کے وفد سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک نئی اور باصلاحیت ٹیم نا صرف ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے پرعزم ہے بلکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شب و روز کام میں مصروف ہے۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ حکومت کے اقتصادی شعبے میں اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آئے گی۔ زرمبادلہ میں کمی کی وجہ سے حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ ماضی میں حاصل کردہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگا۔
حکام کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10.4 ارب ڈالر ہیں جبکہ رواں سال حکومت نے پرانے قرضے کی تین ارب ڈالر کی قسط ادا کرنا ہے۔
دریں اثناء دارالحکومت میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیر خزانہ نے آئی ایم سے قرضہ حاصل کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ یہ حکومت کے بنائے گئے پروگرام کے تحت حاصل کیا گیا ہے۔
’’آئی ایم ایف نے ہمیں کوئی خیرات نہیں دی۔ ہم اس کے ممبر ہیں اور قرضہ لینا ہمارا حق ہے اگر بڑے مغربی ممبر ممالک لے سکتے ہیں۔ ممبر اور با وقار ممبر کی حیثیت سے بہت برا ہوتا اگر ہم قرضے کا پروگرام نا لیتے اور وہاں پاکستان کو بطور نادھندہ پیش کرتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اپنے اخراجات میں آخری حد تک کمی کردی ہے اور اب اس میں مزید کمی کی گنجائش نہیں۔
’’لمبے اور مشکل راستے پر پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے وہ قدم اٹھا لیا ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہے کہ یہ درست سمت ہے تو ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے اور تنقید کرنے والے سمجھ جائیں گے جب تین سال بعد پاکستان کا شمار ابھرتی ہوئی عالمی منڈیوں میں ہوگا۔‘‘
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے معیشت کی بحالی سے متعلق پالیسی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اصلاحات کو نافذ کرنے کی اہلیت موجود ہے۔
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف مریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں۔
’’ریفارمڈ اکانومی کو چلانا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسی اور اصلاحات کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ اب کیونکہ حکومتوں کا دور بھی پانچ پانچ سال کا ہونا شروع ہوگیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ مکمل کریں گی جو کچھ انہوں نے شروع کیا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا پاکستان سے کہنا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں مراعات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ اور بجٹ خسارے میں کمی کرے۔