پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پر قاتلانہ حملے کی بین الااقوامی سطح پرجہاں مذمت کی جارہی ہے وہیں مبصرین اس واقع کے ملک کی سیاسی صورت حال پر اثرات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم خان پرجمعرات کو ہونے والا قاتلانہ حملہ ملکی سیاست پر کئی طرح کے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ملکی قیادت کی طرف سے کشیدہ سیاسی ماحول میں زیادہ ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتا ہے۔
امریکی دارالحکومت میں قائم تھنک ٹینک "مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" کے پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ایک طرف توعمران خان پر حملہ سیاسی تشدد کو ہوا دےسکتا ہے اور دوسری جانب پی ٹی ائی کے رہنمااس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے وائن بام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعہ سے عمران خان کو عوامی ہمدردی حاصل ہو سکتی ہے اور ان کے مطالبات منوانے کی مہم کو مزید تقویت مل سکتی ہے کیونکہ اس سے ان کے سازشی بیانیہ کو پزیرائی ملے گی۔
دوسری طرف ان کے خیال میں لوگ کہیں گے کہ عمران خان پر یہ حملہ ایک پر امن ریلی کے دوران ہوا لہذا لوگ ان کی حمایت میں سخت ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔
"جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو ان پر بھی دباو بڑھے گا کیونکہ پاکستان کی فوج ملک میں امن ا مان کی صورت حال کو بگڑتے دیکھنا نہیں چاہے گی۔ میرے خیال میں اس بات پر زور ہوگا کہ کس طرح حالات کو ٹھنڈا کیا جائے۔"
وائن بام نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اب اس بات کی طرف بڑھے گی کہ مذاکرات کیے جائیں اور اگلے سال اگست سے پہلے کی عام انتخابات کی کوئی تاریخ دے دی جائے۔
ان کے خیال میں ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اگلے سال موسم بہار کے وقت عام انتخابات کی تاریخ طے ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما ملک میں عام انتخابات جلد از جلد کروانے کے مطا لبہ لے کر لانگ مارچ کے دوران پنچاب کے مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب جا ر ہے تھے کہ جمعرات کو وزیر آباد میں ان پر حملہ کیا گیا۔ پولیس کے مطابق مبینہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں تحقیقی ادارے "ووڈرو ولسن سنٹر" میں ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کےڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ اب پاکستانی فوج پر مزید دباو آئے گا ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا فوج موجودہ اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان کسی قسم کی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی جانب کام کرے گی؟
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج کی طرف سے اس طرح کا کردار جلد ادا کرنے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے عمران خان پر حملے کو ایک خطرنا ک خبر قرار دیا لیکن کہا کہ اگر ایک بہادر شہری حملے کو روکنے کی کوشش نہ کرتا تو یہ بد ترین خبر بھی بن سکتی تھی۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے قافلے پر حملے کی تحقیات کا حکم دے دیا ہے۔
سلامتی اور بین الاقوامی امور کے ماہر اور واشنگٹن میں تحقیقی ادارے پولیٹیکٹ کے تجزیہ نگار عارف انصار کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف اور دوسری سیاسی پارٹیوں سمیت ملک کی فوج پر بھی موجودہ حالات کو بے قابو ہونے سے بچانے کے سلسلے میں دباو آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب مرکزی بات یہ ہوگی کہ تمام سیاسی پارٹیاں مذاکرات کی راہ اپنائیں۔
دوسری جانب پاکستان کے مخصوص حالات کے ضمن میں اسٹیبلشمنٹ سے یہ توقع ہو گی کہ وہ حالات کو بد سے بد تر ہونے بچائیں کیونکہ اگر عمران خان کا مارچ جاری رہتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ حالات بگڑنے کی صورت میں ملک کو عدم استحکام کا سامنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب حالات بگڑتے ہیں تو مختلف قوتیں اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لہذا یہ صورت حال سب سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کا تقاضا کرتی ہے۔