اسلام آباد —
عالمی ثالثی عدالت نے بھارت کو کشن گنگا ڈیم کے لیے دریا کے پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دیتے ہوئے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ دریائے نیلم میں پانی کے بہاؤ کو درکار سطح پر برقرار رکھے گا۔
بھارت متنازع علاقے کشمیر میں اپنی جانب کشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس پر پاکستان نے اس کے ڈیزائن پر اعتراض کرتے ہوئے اسے 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
پاکستان کا یہ بھی موقف تھا کہ بھارت کی طرف سے دریا کے پانی کا رخ موڑنے سے اس کے ہاں دریائے نیلم میں پانی کے بہاؤ میں فرق پڑے گا جس سے یہ علاقہ خشک اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداواری استعداد بھی متاثر ہوگی۔ دریائے نیلم کو بھارتی کشمیر میں کشن گنگا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ ’’جزوی طور پر‘‘ پاکستان کے حق میں ہے۔
’’انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت کو پاکستان کے لیے پانی چھوڑنا پڑے گا 318 کیوسک یہ جزوی ریلیف ہے۔ اس سے ہمارے ماحولیات کو ریلیف ملے گا۔۔۔700 ملین یونٹس بجلی کا ہم پر فرق پڑتا تھا کشن گنگا کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر اس میں 150 ملین یونٹس عدالت کے فیصلے سے ہمارا نقصان کم ہوگیا ہے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ نہ صرف کشن گنگا ڈیم پر لاگو ہوگا بلکہ مغربی دریاؤں کے پانیوں پر مستقبل میں کسی بھی طرح کی بھارتی پراجیکٹس بھی اس زمرے میں آئیں گے۔
اس فیصلے سے پاکستانی کشمیر میں زیر تکمیل بجلی کے منصوبے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر پڑنے والے اثرات اور پانی کی کمی کو پورا کرنے کے بارے میں آصف بیگ کا کہنا تھا۔
’’اس کا علاج یہ ہے کہ جو مجوزہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے اس کو بنالیں۔ تو اس میں کشن گنگا سے ہو کر بھارتی جانب جانے کے بعد اس طرف آئے گا تو وہ کوہالہ سے گزرے گا تو جو وہاں جو ہمارا نقصان ہوا ہے تقریباً 550 ملین یونٹس کا ہمیں اتنا ہی یہاں سے پورا ہو جائے گا۔‘‘
بھارتی کشمیر میں کشن گنگا ڈیم 2017ء میں مکمل ہونا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زیر تعمیر نیل جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل 2015 کے اواخر تک متوقع ہے اور حکام کے بقول اس سے ملک کو نو سو میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل ہوسکے گی۔
بھارت متنازع علاقے کشمیر میں اپنی جانب کشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس پر پاکستان نے اس کے ڈیزائن پر اعتراض کرتے ہوئے اسے 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
پاکستان کا یہ بھی موقف تھا کہ بھارت کی طرف سے دریا کے پانی کا رخ موڑنے سے اس کے ہاں دریائے نیلم میں پانی کے بہاؤ میں فرق پڑے گا جس سے یہ علاقہ خشک اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداواری استعداد بھی متاثر ہوگی۔ دریائے نیلم کو بھارتی کشمیر میں کشن گنگا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ ’’جزوی طور پر‘‘ پاکستان کے حق میں ہے۔
’’انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت کو پاکستان کے لیے پانی چھوڑنا پڑے گا 318 کیوسک یہ جزوی ریلیف ہے۔ اس سے ہمارے ماحولیات کو ریلیف ملے گا۔۔۔700 ملین یونٹس بجلی کا ہم پر فرق پڑتا تھا کشن گنگا کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر اس میں 150 ملین یونٹس عدالت کے فیصلے سے ہمارا نقصان کم ہوگیا ہے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ نہ صرف کشن گنگا ڈیم پر لاگو ہوگا بلکہ مغربی دریاؤں کے پانیوں پر مستقبل میں کسی بھی طرح کی بھارتی پراجیکٹس بھی اس زمرے میں آئیں گے۔
اس فیصلے سے پاکستانی کشمیر میں زیر تکمیل بجلی کے منصوبے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر پڑنے والے اثرات اور پانی کی کمی کو پورا کرنے کے بارے میں آصف بیگ کا کہنا تھا۔
’’اس کا علاج یہ ہے کہ جو مجوزہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے اس کو بنالیں۔ تو اس میں کشن گنگا سے ہو کر بھارتی جانب جانے کے بعد اس طرف آئے گا تو وہ کوہالہ سے گزرے گا تو جو وہاں جو ہمارا نقصان ہوا ہے تقریباً 550 ملین یونٹس کا ہمیں اتنا ہی یہاں سے پورا ہو جائے گا۔‘‘
بھارتی کشمیر میں کشن گنگا ڈیم 2017ء میں مکمل ہونا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زیر تعمیر نیل جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل 2015 کے اواخر تک متوقع ہے اور حکام کے بقول اس سے ملک کو نو سو میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل ہوسکے گی۔