قائم مقام انڈس واٹر کمشنر عثمان غنی نے کہا ہے کہ پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے اپنی جانب جو متنازع ڈیم تعمیر کیے ہیں یا کر رہا ہے، پاکستانی آبادیوں پر اُن منصوبوں کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے کیوں کہ بھارتی منصوبوں سے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کم ہو گیا ہے جبکہ بعض مقامات پر دریا خشک ہو جانے سے زراعت اور لوگوں کے مال مویشی بھی متاثر ہوئے ہیں۔
’’ بھارت نے مغربی دریاؤں کے اپ سٹریم پر اپنے پراجکیٹس بنائے ہیں اور ہم نیچے باکل خشک ہو گئے ہیں وہاں جائیں تو دیکھیں کہ لوگ کس طرح متاثر ہوئے ہیں مال مویشی مر رہے ہیں یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ان علاقوں میں کم از کم فلوز تو آنے چاہیئں۔‘‘
عثمان غنی نے بتایا کہ پاکستان انڈس واٹر کمیشن کی معلومات کے مطابق بھارت مزید نئے آبی ذخائر اور ہائیڈرو پراجکیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس سے صورت حال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے انڈس کمشنرز مستقبل میں تعمیر کئے جانے والے آبی منصوبوں کی معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے ہر سال مئی جون میں باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر رواں سال یہ اجلاس نہیں ہو سکا۔ انڈس واٹر کمشنر نے اس تاخیر کا الزام بلواسطہ طور پر بھارت پر لگاتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک اجلاس بلانے اور اس میں تاخیر پر بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاہم انھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
1960 ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے جبکہ راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے حصے میں آیا تھا۔
بھارت اس الزام کو رد کرتا ہے کہ اس دوطرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُس نے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر ڈیم تعیمر کیے ہیں۔ ان میں کشن گنگا اور بگلیہار ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لیے معاہدے کے تحت پاکستان غیر جانبدارانہ ثالثی کے لیے عالمی عدالت سے بھی رجوع کر چکا ہے جس میں کسی حد تک پاکستانی موقف کو تسلیم بھی کیا گیا ہے۔
پاک بھارت مذاکرات میں دیرینہ تنازعات کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں پانی کا مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
پاکستانی حکام نے دریاؤں میں پانی کی غیر معمولی کمی کے بارے میں خدشات کا اظہار ایسے وقت کیا ہے جب دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدے داروں نےتعلقات میں بہتری اور تجارت کے فروغ سمیت تمام مسائل پر حالیہ مذاکرات میں پیش رفت کے دعوے کیے ہیں۔