رسائی کے لنکس

کشیدگی برقرار، پاکستانی فوج پر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’’بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان پر بلا جواز الزامات کی روش اور معنی خیز مذاکرات سے گریز خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے ’اوڑی‘ میں شدت پسندوں کے ایک حملے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جنوبی ایشیا کے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے عہدیداروں کی طرف سے ایک دوسرے کے ملک کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

حملے کے بعد بھارتی عہدیداروں نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’’بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان پر بلا جواز الزامات کی روش اور معنی خیز مذاکرات سے گریز خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

بھارتی حکام کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اُنھیں ایسے قابل عمل شواہد ملے ہیں کہ حملہ کرنے والوں کا تعلق پاکستان میں موجود کالعدم تنظیم ’جیش محمد‘ سے تھا۔

تاہم پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے کہا گیا کہ بغیر ٹھوس شواہد اور تحقیقات کے ہی اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا گیا جو کہ درست نہیں۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کی، جس کے بعد جاری ہونے والے بیان کے مطابق چوہدری نثار نے کہا کہ ’’پاکستان نہ تو بھارتی دھمکیوں سے مرعوب ہوگا اور نہ ہی کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت سے پیچھے ہٹے گا‘‘۔

اُدھر کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ پر پاکستانی اور بھارتی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارتی فوجیوں کی چوکیوں پر فائرنگ کی گئی، تاہم اس میں کسی طرح کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر فائر بندی سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا تھا، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ اکثر و بیشتر ہوتا رہا ہے۔

لیکن فائرنگ کا حالیہ تبادلہ ایسے وقت ہوا جب دوطرفہ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔

XS
SM
MD
LG