اسلام آباد —
پاکستان کی طرف سے بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی مراعات یافتہ ملک کا درجہ دیے جانے سے متعلق جلد مثبت فیصلہ سامنے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی سابقہ حکومت نے یہ درجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کی منظوری دسمبر 2012 میں اس وقت کی کابینہ کی طرف سے دی جانی تھی۔
ل
یکن دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کی عارضی حد بندی پر تعلقات کشیدہ ہونے اور تجارت سے متعلق بعض امور پر اختلاف کے باعث اس پر عمل درآمد تاخیر کا شکار ہو گیا۔
نواز شریف کی حکومت نے وزیرخزانہ اسحق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں بھارت کو یہ درجہ دینے سے متلعق مختلف حلقوں کے خدشات اور تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کرنے کا کہا گیا تھا۔
رواں ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس کمیٹی کی تجاویز پر غور کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ سامنے آجائے گا۔
منگل کو وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے بھی اس بات کا عندیہ دیا۔
‘‘بھارت پاکستان کو یہ درجہ 1998 میں دے چکا ہے۔ سابقہ حکومت پیپلز پارٹی کی کابینہ نے یہ معاہدے کیے تھے اور ایک باوقار ملک ہونے کے ناطے ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ہم ان معاہدوں پر عمل درآمد کررہے ہیں کوئی نیا معاہدہ نہیں کرنے جارہے ۔’’
توقع ہے کہ پاکستان واہگہ کے راستے ہندوستان سے تمام اشیا کی درآمد کی اجازت دے گا اور لگ بھگ 1200 اشیا پر مشتمل ‘نیگٹیو یا منفی’ فہرست ختم کر دی جائے گی۔
منفی فہرست کے ہوتے ہوئے اس میں شامل زراعت، گاڑیوں کے پرزہ جات اور ادویات سمیت بہت سے اشیاء بھارت سے پاکستان درآمد نہیں کی جا سکتیں۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیے جانے سے ٹیکسٹائل، سیمنٹ، کیمیکل، زرعی مصنوعات، معدنی مصنوعات سمیت مختلف شعبوں میں تجارت میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔
گزشتہ سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے اقدامات کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان سرکاری سطح پر سفارتی رابطوں کے علاوہ غیر رسمی سفارت کاری بھی جاری ہے۔
پاکستان کی سابقہ حکومت نے یہ درجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کی منظوری دسمبر 2012 میں اس وقت کی کابینہ کی طرف سے دی جانی تھی۔
ل
یکن دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کی عارضی حد بندی پر تعلقات کشیدہ ہونے اور تجارت سے متعلق بعض امور پر اختلاف کے باعث اس پر عمل درآمد تاخیر کا شکار ہو گیا۔
نواز شریف کی حکومت نے وزیرخزانہ اسحق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں بھارت کو یہ درجہ دینے سے متلعق مختلف حلقوں کے خدشات اور تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کرنے کا کہا گیا تھا۔
رواں ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس کمیٹی کی تجاویز پر غور کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ سامنے آجائے گا۔
منگل کو وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے بھی اس بات کا عندیہ دیا۔
‘‘بھارت پاکستان کو یہ درجہ 1998 میں دے چکا ہے۔ سابقہ حکومت پیپلز پارٹی کی کابینہ نے یہ معاہدے کیے تھے اور ایک باوقار ملک ہونے کے ناطے ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ہم ان معاہدوں پر عمل درآمد کررہے ہیں کوئی نیا معاہدہ نہیں کرنے جارہے ۔’’
توقع ہے کہ پاکستان واہگہ کے راستے ہندوستان سے تمام اشیا کی درآمد کی اجازت دے گا اور لگ بھگ 1200 اشیا پر مشتمل ‘نیگٹیو یا منفی’ فہرست ختم کر دی جائے گی۔
منفی فہرست کے ہوتے ہوئے اس میں شامل زراعت، گاڑیوں کے پرزہ جات اور ادویات سمیت بہت سے اشیاء بھارت سے پاکستان درآمد نہیں کی جا سکتیں۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیے جانے سے ٹیکسٹائل، سیمنٹ، کیمیکل، زرعی مصنوعات، معدنی مصنوعات سمیت مختلف شعبوں میں تجارت میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔
گزشتہ سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے اقدامات کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان سرکاری سطح پر سفارتی رابطوں کے علاوہ غیر رسمی سفارت کاری بھی جاری ہے۔