اسلام آباد —
بھارت نے اجمیر میں صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے عرس میں شرکت کے لیے آنے والے پاکستانی زائرین کو تحفظ فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جمعہ کو جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے نائب ناظم الامور نے وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیا کے اُمور کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں ان کا ملک پاکستانی زائرین کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے سے قاصر ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی سفارتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سال اپنے زائرین کے دورے کو منسوخ کر دے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں وزارت مذہبی اُمور کو ہدایت بھجوا دی گئی ہے۔
پاکستانی زائرین کو اس عرس میں شرکت کے لیے 13 سے 23 مئی تک بھارت کا دورہ کرنا تھا۔
پاکستان میں جاسوسی اور بم دھماکوں کے الزام میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے قید بھارتی شہری سربجیت سنگھ کو 26 اپریل کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ساتھی قیدیوں نے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جو تقریباً ایک ہفتہ بے ہوشی کی حالت میں زیرعلاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔
اس واقعے پر بھارت میں عوامی اور سرکاری سطح پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا جب کہ سربجیت کی موت کے ایک دن بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جیل میں قید پاکستانی شہری ثناء اللہ کے ساتھ بھی سربجیت جیسا واقعہ پیش آیا اور وہ بھی شدید زخمی ہونے کے بعد چندی گڑھ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گیا۔
بھارت میں سربجیت کی موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خصوصاً انتہا پسند تنظیموں نے پاکستان سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ اس واقعے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد ہی سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور ان کے درمیان اب تک تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔
گزشتہ برس دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور تجارتی سطح پر روابط بڑھا کر حالات کو ایک بار پھر معمول پر لانے کی کوشش کی گئی۔ ان مشترکہ کوششوں میں ایک دوسرے کے شہریوں کو سفر کے لیے ویزوں میں نرمی دینا بھی شامل تھا۔
بھارت میں متعدد صوفی بزرگوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کے لیے پاکستانی وہاں جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں ہندوؤں اور خصوصاً سکھوں کے مقدس مقامات پر حاضری کے لیے ہزاروں یاتری یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جمعہ کو جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے نائب ناظم الامور نے وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیا کے اُمور کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں ان کا ملک پاکستانی زائرین کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے سے قاصر ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی سفارتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سال اپنے زائرین کے دورے کو منسوخ کر دے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں وزارت مذہبی اُمور کو ہدایت بھجوا دی گئی ہے۔
پاکستانی زائرین کو اس عرس میں شرکت کے لیے 13 سے 23 مئی تک بھارت کا دورہ کرنا تھا۔
پاکستان میں جاسوسی اور بم دھماکوں کے الزام میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے قید بھارتی شہری سربجیت سنگھ کو 26 اپریل کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ساتھی قیدیوں نے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جو تقریباً ایک ہفتہ بے ہوشی کی حالت میں زیرعلاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔
اس واقعے پر بھارت میں عوامی اور سرکاری سطح پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا جب کہ سربجیت کی موت کے ایک دن بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جیل میں قید پاکستانی شہری ثناء اللہ کے ساتھ بھی سربجیت جیسا واقعہ پیش آیا اور وہ بھی شدید زخمی ہونے کے بعد چندی گڑھ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گیا۔
بھارت میں سربجیت کی موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خصوصاً انتہا پسند تنظیموں نے پاکستان سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ اس واقعے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد ہی سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور ان کے درمیان اب تک تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔
گزشتہ برس دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور تجارتی سطح پر روابط بڑھا کر حالات کو ایک بار پھر معمول پر لانے کی کوشش کی گئی۔ ان مشترکہ کوششوں میں ایک دوسرے کے شہریوں کو سفر کے لیے ویزوں میں نرمی دینا بھی شامل تھا۔
بھارت میں متعدد صوفی بزرگوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کے لیے پاکستانی وہاں جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں ہندوؤں اور خصوصاً سکھوں کے مقدس مقامات پر حاضری کے لیے ہزاروں یاتری یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔