پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ رواں ماہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران خطے کی مجموعی سیاسی صورتحال کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی بات ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ وزیر اعظم کے دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ عمران خان صدر ٹرمپ کی دعوت پر 21 سے 23 جولائی تک امریکہ کا دورہ کریں گے، وہ 22 جولائی کو صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات کریں گے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات رواں سال کے آغاز سے ہی کشیدہ ہیں، فروری میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے میں متعدد بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے گرانے کے دعوے کیے تھے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری کی مداخلت پر جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔
امریکہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔ تاہم، بھارت مذاکرات کی پاکستانی پیشکش کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاک بھارت تعلقات پر بات چیت اہمیت کی حامل ہو گی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملات زیر بحث لانے کے سوال پر ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔ تاہم، فی الحال اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔
افغان امن عمل اور پاکستان
وائٹ ہاؤس کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کا ساتواں دور جاری ہے۔
ان مذاکرات میں دہشت گردی کا خاتمہ، جنگ بندی، بین الافغان مذاکرات اور اتحادی افواج کے افغانستان کے انخلا پر بات چیت جاری ہے۔ اس تناظر میں سیاسی مبصرین وزیر اعظم عمران خان کے اس دورے کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’پاکستان افغان عمل کی کامیابی چاہتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے کردار کو امریکہ نے بھی تسلیم کیا ہے جو ایک مثبت اشارہ ہے، پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘‘
خیال رہے کہ 22 جولائی کو طے شدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات دونوں رہنماؤں کی پہلی باضابطہ ملاقات ہو گی۔
عمران خان کا دورہ امریکہ تجزیہ کاروں کی رائے
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں امریکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا تعاون چاہتا ہے اور اسی لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ 22 جولائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران زیادہ تر بات افغانستان سے متعلق ہوگی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں حائل بد اعتمادی دور کرنے پر دھیان مرتکز کیا جائے اور اسے جس حد تک ہو سکے، دور کیا جائے۔
ان کے بقول، دہشت گردی کے معاملے پر بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو نا اتفاقی رہی ہے، اس دورے میں اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے خیال میں پاکستان چاہے گا کہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاک بھارت بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کرائے۔ لیکن ان کے بقول، امریکہ کا مفاد بنیادی طور پر افغانستان کے ارد گرد گھومتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا میں اب تک اس بات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ امریکہ نے بھارت سے کہا ہو کہ اسے پاکستان سے گفتگو کرنی چاہیے۔
جب ان کا دھیان وائٹ ہاؤس کے اس بیان کی جانب مبذول کرایا گیا جس میں وزیرِ اعظم پاکستان کے دورے کے دوران تجارت کے علاوہ دفاعی امور پر بھی گفتگو کا عندیہ دیا گیا ہے، تو ڈاکٹر رضوی کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ دفاعی تعلقات دیرینہ ہیں جن میں بگاڑ آتا رہتا ہے اور اس وقت بھی آیا ہوا ہے۔
ان کے بقول، "غالباً امریکہ اس بات میں دلچسپی رکھتا ہوگا کہ ان تعلقات کو بحال کیا جائے چونکہ اس سے پاکستان کو کچھ اسلحہ بیچا جا سکتا ہے۔"
ان کے خیال میں، اس کے برعکس، پاکستان کی دلچسپی امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی اور ملٹری ٹریننگ کے پروگرام کی بحالی میں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ دورے میں علاقے کی مجموعی سیکورٹی کے معاملات بھی زیرِ بحث آئیں گے جن میں افغانستان اور بھارت کے علاوہ ایران اور چین کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر مارون وائن بام کے خیال میں عمران خان کے دورۂ واشنگٹن کے دوران دہشت گردوں کی مالی معاونت اور طالبان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی جب کہ باہمی تجارت پر بھی گفت و شنید متوقع ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مارون وائن بام نے کہا کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے دونوں رہنماؤں اور ان کی حکومتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع میسر آئے گا۔
ان کے بقول، ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی قربت پیدا ہو جائے جس سے ان کے ملک کو فائدہ پہنچے۔
انھوں نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ ٹرمپ عمران خان کے لیے انتہائی عزت کا اظہار کریں گے، اور بدلے میں عین ممکن ہے کہ انہیں ایسے ہی رویے کا سامنا ہو۔
تجارت سے متعلق سوال پر ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ نے یہ بات یقینی بنائی ہوئی ہے کہ پاکستان کو کسی قسم کا فوجی ساز و سامان نہ دیا جائے اور اب دیکھنا ہوگا کہ اس ضمن میں اسے کوئی رعایت دی جاتی ہے یا نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان چاہے گا کہ اس کے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعلقات بحال ہوں۔
بقول ان کے "پاکستان کا موقف ہوگا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں ہم نے بہت مدد دی ہے جس کی بنیاد پر ہم پر زیادہ اعتماد کیا جانا چاہیے۔ اس سے قبل امریکہ کو شکایت رہی تھی کہ پاکستان اتنا کچھ نہیں کر رہا ہے۔"
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ اگر بات چیت اچھے انداز میں ہوتی ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کے اثرات تجارت اور دفاعی تعلقات میں بہتری کی صورت میں دکھائی دیں۔