جنوبی ایشیا میں جوہری صلاحیت کے حامل دو پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کم ہو یا زیادہ حالیہ برسوں میں پاکستان سے ہر سال ہزاروں افراد علاج کے لیے پڑوسی ملک بھارت جاتے رہے ہیں، جن میں خاص طور پر جگر اور عارضہ قلب کے شکار مریض شامل ہیں۔
طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات کے باوجود علاج کے لیے پاکستانی شہریوں کے بھارت جانے کی وجہ پڑوسی ملک میں صحت کی نسبتاً سستی اور بہتر سہولتوں کی فراہمی ہے۔
لیکن حال ہی پاکستان کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ علاج کی غرض سے بھارت جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کو اب ویزے جاری کرنے کا عمل مشکل بنا دیا گیا اور ویزے جاری بھی نہیں کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں بھارت کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج نے بھارتی فورسز کے دو اہلکاروں کو ہلاک کر کے اُن کی لاشوں کی مسخ کر دیا تھا، تاہم پاکستان کی طرف سے اس کی تردید کی گئی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی کے ’’واقعہ کے بعد ہمارے جو مریض انڈیا علاج کے لیے جاتے تھے، اُن کو ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، کیوں کہ وہاں پر (اعضا) کی پیوند کاری کی سہولیات سستی اور بہتر موجود ہیں۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ مریض جن کو تکلیف ہوئی ہے، اُن کے بارے میں دیکھ رہے کہ اُن کو کیسے سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ علاج کا خرچ پاکستانی شہری خود برداشت کرتے ہیں اُنھیں اب ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نفیس ذکریا کے بقول حال ہی میں بھارت نے علاج کے لیے ویزے کا اجرا مشروط کر دیا ہے، جس کے تحت ہر مریض کے ویزے کے لیے پاکستان کے مشیر خارجہ کو بھارت کی وزارت خارجہ کو خط لکھنا ہو گا۔
لیکن بھارتی ہائی کمیشن کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ویزوں کا اجراء نہیں روکا گیا ہے۔
ہائی کمیشن کے ذرائع کے مطابق ہر سال لگ بھگ 5000 ہزار پاکستانیوں کو علاج کے لیے بھارت کے ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے سبب علاج کے متمنی بہت سے پاکستانیوں کو بھارتی ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’’بہت لوگ علاج کے لیے جاتے ہیں، خاص طور پر بچوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض علاج وہاں دستیاب ہیں خاص طور پر کم عمر بچوں کے لیے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اپنی جگہ لیکن ’’انسانی بھلائی کی جو بات ہے وہ جاری رہنی چاہیئے۔‘‘
بھارت میں علاج کے لیے جانے کی حقیقی وجہ ہے کیا اور عموماً کن بیماریوں میں مبتلا افراد پڑوسی ملک میں علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس بارے میں اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹیٹویٹ آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر سلمان شفیع کول کہتے ہیں کہ بھارت میں ناصرف علاج سستا ہے بلکہ اُن کے بقول وہاں ادویات کی قیمت بھی کم ہے۔
’’ہیلتھ کیئر کے لحاظ سے بھارت میں یہاں کے مقابلے سہولتیں زیادہ ہیں۔۔۔ جس میں اعضا کی پیوند کاری کی سہولت (اہم ہے)، گردے ٹرانسپلانٹ یا جگر ٹرانسپلانٹ کے جو آپریشن ہیں اُن کے حوالے سے بھارت میں زیادہ تجربہ پایا جاتا ہے۔۔۔ پاکستان میں بھی (اعضاء) کی پیوندکاری کی جاتی ہے لیکن یہاں خرچ کچھ زیادہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلمان شفیع کہتے ہیں کہ بھارت علاج کے لیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی بھی مریض کو زیادہ سفر بھی نہیں کرنا پڑتا ’’کیوں کہ لاہور سے بس کے ذریعے آپ کچھ گھنٹوں میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
علاج کی غرض سے جانے والے مریضوں کے ہمراہ اُن کے رشتے دار بھی دیکھ بھال کے لیے بھارت جاتے ہیں تاہم پاکستان میں معالجین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پڑوسی ملک میں علاج پر خرچ قدرے کم آتا ہے۔
ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں مختلف نوعیت کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات میں ہر سال اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن اُن کے بقول اگر جگر کے ٹرانسپلانٹ کی حد تک دیکھیں تو پاکستان کی نسبت بھارت میں اس علاج کے اخراجات 10 سے 15 لاکھ روپے کم ہو سکتے ہیں۔
دو پڑوسی ممالک جن کے لوگوں کا رہن سہن بھی بہت حد تک ایک دوسرے سے ملتا ہے، شاید یہ ہی ایک بڑی وجہ سے کہ علاج کا خرچ برداشت کرنے والے بھارت جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
عموماً علاج کے لیے بھارت جانے والے پاکستانی یا تو بڑی عمر کے مرد و خواتین ہوتے ہیں یا پھر نو عمر بچے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں کم کرنے کے خواہاں لوگوں کا کہنا ہے کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نا ہوں، بیماریوں اور علاج کے متمنی افراد کے سفر کے لیے اگر مزید آسانیاں پیدا نہیں کی جاتیں تو اُن کے لیے سفر کو پیچیدہ بنانا کسی طور سود مند نہیں ہو گا۔